ابھی نثر نثر ہے زندگی مری زندگی کو غزل کرو
کبھی آرزوؤں کی جھیل میں مری خواہشوں کو کنول کرو
کبھی خوف ہجر طویل کا کبھی شوق ہے تری دید کا
دل مضطرب کے یہ مسئلے ہیں جو آؤ تو انہیں حل کرو
یہ جو سربریدہ وجود ہے اسے اپنے ہونٹوں کا لمس دو
مجھے زندگی کی طلب نہیں مرے نام بس کوئی پل کرو
نہ میں خوش گماں ہوں وصال سے نہ تو بدگماں ہو فراق سے
ترے دل کا جو بھی ہے فیصلہ مری جاں اسی پہ عمل کرو
مرے ساتھ چلنا ہے گر چلو مرے دل پہ شاہی تمہاری ہے
مجھے چھوڑنا ہے تو چھوڑ دو جو بھی فیصلہ ہے اٹل کرو