Add Poetry

بدن کے ساتھ ہی آشوبِ جاں اٹھائے ہوئے

Poet: فاروق نور By: فاروق نور, Burhanpur

بدن کے ساتھ ہی آشوبِ جاں اٹھائے ہوئے
چلو کچھ اور یہ بار گراں اٹھائے ہوئے

ہمارے جیسے تو دو چار دس ہی ہوں گے یہاں
زمیں پہ پھرتے ہیں جو آسماں اٹھائے ہوئے

تمام صحرا ہی گلشن دکھائی دیتا ہے
ہے تیرے پیروں کے جب سے نشاں اٹھائے ہوئے

بڑھا دی موت نے کچھ اور بھی مری تکریم
ہیں ہاتھوں ہاتھ مجھے مہرباں اٹھائے ہوئے

حسین بن کے گزاری ہے زندگی میں نے
تمام یار رہے برچھیاں اٹھائے ہوئے

عجیب خواب یہ دیکھا گزشتہ شب میں نے
کھڑے ہیں لوگ مجھے درمیاں اٹھائے ہوئے

میں اس کے سامنے کب تک رہوں گا سینہ سپر
وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے کماں اٹھائے ہوئے

تمام رات کی روداد کہہ رہی ہے نور
یہ بجھتی شمع لبوں پر دھواں اٹھائے ہوئے

Rate it:
Views: 148
15 Jun, 2023
Related Tags on Love / Romantic Poetry
Load More Tags
More Love / Romantic Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets