عجب بیگانگی سے وہ سرِ بازار ملتا ہے
بڑی ہی چاہتوں سے جو پسِ دیوار ملتا ہے
پریشاں دیکھ کر مجھ کو ہمیشہ شاد رہتا ہے
چلو یونہی سہی گر وہ، مجھے سر شار ملتا ہے
تعلق بر طرف کر دوں، اسے جب بھی بتاتا ہوں
ستم گر اس قدر ہے وہ، مجھے تیار ملتا ہے
تہجد میں تو پڑھتا ہوں کہ اس کو نیند آ جائے
وہ آدھی رات کو لیکن مجھے بیدار ملتا ہے
میں ہر پل سوچتا رہتا ہوں طغیانی کی لہروں کو
وہ پل کیسے بناتا ہے، ندی کے پار ملتا ہے