مہتاب بدن اور لب و رخسار کی خوشبو
اور اُس پہ اضافت گل و گلزار کی خوشبو
پردہ جو اٹھا تو نظر آئے لب و عارض
محفل میں بھی پھیلی ترے دیدار کی خوشبو
اشعار مرے آئینہ ہیں زیست کا میری
آئگی غزل سے مرے کردار کی خوشبو
اصنام سبھی کانپ کے سجدوں میں گرے ہیں
ہے کتنی عجب صبحِ نمودار کی خوشبو
اے ہجر کی شب کیوں؟ ترے بستر سے ابھی بھی
آتی ہے مجھے گیسوئے خم دار کی خوشبو
کیوں وادئ گل رشکِ بہاراں نہ ہو بدری
ہے شاملِ گل نالۂ غم خوار کی خوشبو