✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
jahanzeb kunjahi
Search
Add Poetry
Poetries by jahanzeb kunjahi
نسبتِ بنتِ حوا تھی ورنہ
کسی سے اب کوئی گلہ ہی نہیں
کیوں کہ اپنا کوئی رہا ہی نہیں
ملنا تو چاہیے تھا دوبارہ
تو یوں بچھڑا کہ پھر ملا ہی نہیں
نسبتِ بنتِ حوا تھی ورنہ
مجھ سا کوئی درندہ تھا ہی نہیں
میرا کوئی پتہ کرو کہ مرا
کسی کو آج تک پتہ ہی نہیں
آئینہ میں ہوں یا میں آئینہ ہوں
میں نہیں ہوں یا آئینہ ہی نہیں
خاک تم دل جلانے والے ہو
کہ مرا تم سے دل جلا ہی نہیں
تم سے کیسے ملوں کہ میں تو کبھی
خود کو بھی بھول سے ملا ہی نہیں
ایک ہی حادثہ ہے یعنی تو
اور وہ بھی ہم سے بھولتا ہی نہیں
jahanzeb kunjahi
Copy
معاف کیا تم کو تم بَری تو ہو لیکن
معاف کیا تم کو تم بَری تو ہو لیکن
سبھی دلائل تیرے خلاف ہیں جاناں
خبر سنی ہے تم بے حجاب نکلو گے
ہاں نکلو اب سو خوں بھی معاف ہیں جاناں
jahanzeb kunjahi
Copy
تو مرے دل سے نکل کیوں نہیں جاتا
تو مرے دل سے نکل کیوں نہیں جاتا
ذہن سے میرے خلل کیوں نہیں جاتا
یہ جو سینے میں دبائے ہو پتھر کو
یہی پتھر، یہ پگھل کیوں نہیں جاتا
جہانزیب کُنجاہی شامی
Copy
میں اک ٹوٹا ہوا سا گھر ہوں
میں اک ٹوٹا ہوا سا گھر ہوں
مجھ میں کوئی رہے گا کیوں کر
جہانزیب کُنجاہی شامی
Copy
تُف شکوائے یار پر کہ پسِ مرگ
اک عمر بیتی سکوں پانے کے لیے
زندگی جھیلی ہے مرجانے کے لیے
ضروری تھا کے ہم پاگل ہوجائیں
یہی صورت نکلی بھلانے کے لیے
آپ بے وفائی گر نا کرتے ہم سے
کہاں داستاں لکھتا زمانے کے لیے
نا حدِ خنجر دکھائیں کہ بےرخی
بس کافی ہے ہمیں ڈھانے کے لیے
تیر سینے سے آر پار کر دیا ہمارے
اک تنکا تھا چرایا آشیانے کے لیے
تف شکوائے یار پر کہ پس مرگِ
گلے اٹھا لائے ہیں سنانے کے لیے
ہم روٹھ بھی جائیں ان سے مگر
وہ کہاں آئیں گے منانے کے لیے
آپ تشریف لائیں کے آپ کے قدم
ضروری ہیں ہمارے آستانے کے لیے
ہمارے سامنے غیر ہاتھ تھام لیا
انہیں اور نا سوجھی جلانے کے لیے
آپ سامنے آئیں ہمیں جینا ہے جہاں
مریض کو دوا چاہے شفا پانے کے لیے
jahanzeb kunjahi
Copy
میں نقطہ نظر سمجھایا گیا ہوں
قطرہ قطرہ لایا گیا ہوں
صحراؤں میں برسایا گیا ہوں
کن سے لوح پر لکھوایا گیا ہوں
کن سے ہی مٹایا گیا ہوں
عشقِ مجازی میں تعمیر ہوا
عشقِ حقیقی میں ڈھایا گیا ہوں
تعبیرِ خوابِ پدر کی خاطر
سرِ خنجرِ خلیل آزمایا گیا ہوں
شہر شہر نگر نگر گلی گلی
قریہ قریہ رولایا گیا ہوں
تقاضائے ادب جرأتِ کلام نا کرنا
بڑی خامشی سے ستایا گیا ہوں
بصورتِ قیس لبادائے عشق میں
لیلی کی خاطر تماشایا گیا ہوں
سرِ عرش نور سے نہلایا گیا ہوں
سرِ فرش تہہِ خاک سلایا گیا ہوں
لغزش فقط خِطَّائے ربانی تھا
فردوس سے نکلا نہیں نکلوایا گیا ہوں
آتشِ نمرود میں گرایا گیا ہوں
کبھی صلیبوں پر لٹکایا گیا ہوں
مجسمائے طینی میں تخلیقِ نور
محدود مدت تک لایا گیا ہوں
آرائشِ کائنات میں مثلِ شمع
روشنی کے لیے جلایا گیا ہوں
ملائک وجن و خلق تمام کو
میں نقطہ نظر سمجھایا گیا ہوں
jahanzeb kunjahi
Copy
کسی سے شکوہ کیوں کریں ہم
کسی سے شکوہ کیوں کریں ہم
کسی کا گلہ کیوں کریں ہم
ایک بار تو آزما چکے ہیں
اب یقیں دوبارہ کیوں کریں ہم
تمنا ہی تمہیں پانے کی کی ہے
غیر کا تقاضہ کیوں کریں ہم
جہاں کام اشاروں سے چلتا ہو
وہاں ہاتھ پسارا کیوں کریں ہم
جمال جھیلے ہیں یہی کافی ہے
تمہارے ناز گوارہ کیوں کریں ہم
تم کسی کے ہو تمہیں چھین کر
زبردستی اپنا کیوں کریں ہم
جینے کی وجہ نہیں رہی تو
مرنے کی تمنا کیوں کریں ہم
تم نہیں ملے تو نہ سہی
اپنا حال برا کیوں کریں ہم
جب پتہ ہے آتش ہے عشق
پھر دوستانہ کیوں کریں ہم
بلاوجہ کیوں مرجائیں کسی پر
بلاوجہ یہ خطا کیوں کریں ہم
تمہاری خاطر کیوں لڑیں ہم
خدا سے جھگڑا کیوں کریں ہم
ایک دو غم ہو تو سہہ لیں
عمر بھر گزارہ کیوں کریں ہم
jahanzeb kunjahi
Copy
تھوڑی سی شراب
دو پل حیات جینے کے لیے
کافی ہے تھوڑی سی شراب
شیخ سے سُنا تھا وقتِ ضرورت
معافی ہے تھوڑی سی شراب
jahanzeb kunjahi
Copy
کئیں پاگل ہوئے کئیں کے سر گئے
تیری پناہ میں آئے تو سنور گئے
مقام اتنے ملے خوشی سے مر گئے
وہ جن کا چرچا کوبکو کیا ہم نے
ہائے وہ مجھے دیکھ کر مکر گئے
نظر کے سامنے ہی رہتا ہے ہر پل
وہ آئے یہ گئے اِدھر آئے اُدھر گئے
تمہارے سب سوال تھے قاتلانہ
ہم خوشی خوشی صبر کر گئے
تمہیں دیکھ کر کئیں مچل گئے
کئی پاگل ہوئے کئیں کے سر گئے
ہم بنا کاٹھ کے گھوڑا ہیں جناب
ہمارے چاہنے والے سب گزر گئے
بڑا افسوس ہوا یہ سن کر جہاں
کے ہم آج ان کے دل سے اتر گئے
جہانزیب کُنجاہی دمشقی
Copy
میں کچھ بھی نئی
تم پری ہو میں کچھ بھی نئی
تم نازک سی ہو میں کچھ بھی نئی
میں تو آفتاب کی تپش ہوں
تم چاندنی ہو میں کچھ بھی نئی
پھول تجھ سے ہیں یا تم پھولوں سے
خیر جو بھی ہو میں کچھ بھی نئی
تم وہ ہو جو کرتی ہے سیر گل کی
یعنی تم تتلی ہو میں کچھ بھی نئی
تم جمالِ قمر و گل تم قابل محبت
تم ہوا ٹھنڈی ہو میں کچھ بھی نئی
تم مرجان و الماس تم لعل و گہر
تم عنبری عنبری میں کچھ بھی نئی
تم جانِ قرار تم جانِ تمنا تم دل ہو
تم بہت پیاری ہو میں کچھ بھی نئی
تم عبادت تم زندگی تمہی بندگی
تمہی سبھی ہو میں کچھ بھی نئی
تمہی منزل تمہی حاصلِ حیات بھی
بےشک تم ایسی ہو میں کچھ بھی نئی
تم دعا ہو مدعی ہو مدعا ہو تم وفا
تم ہی زندگی ہو میں کچھ بھی نئی
جہاں بھی نظر دڑائی تمہیں دیکھا
بس تمہی تمہی ہو میں کچھ بھی نئی
تم ہدیہ ہو خدا کی طرف سے
تم عطا خدا کی ہو میں کچھ بھی نئی
سینے میں دل کی جگہ تم دھڑکتی ہو
تم حاصلِ ہر خوشی ہو میں کچھ بھی نئی
تم قاتل بھی ہو تم آبِ حیات بھی
تم یہ بھی تم وہ بھی ہو میں کچھ بھی نئی
تم عشق بھی ہو رستہ بھی منزل بھی
تم شاعری تم عاشقی ہو میں کچھ بھی نئی
تم صبح کی ملکہ تم دن کی روشنی
تم رات کی رانی ہو میں کچھ بھی نئی
تم راتوں کا چین تم صبح کی تازگی
تم مشکل میں آسانی ہو میں کچھ بھی نئی
تم مختصر سا قصہ بھی ہو اور تم ہی
طویل کہانی ہو میں کچھ بھی نئی
جہاں چلو اب اختتامِ کلام کر دیں
سب کچھ تمہی ہو میں کچھ بھی نئی
جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی
Copy
اور میں مر گیا چپ کر کے
مرا یار مرا ہم نشینِ محفل
قریب سے گزر گیا چپ کر کے
نہ شور شرابہ نہ تماشہ کیا
ٹوٹ کر بکھر گیا چپ کر کے
دنیا میں تو کہیں سکوں نہیں
آخر وہ کدھر گیا چپ کر کے
حکمِ یار میں مرنے کا حکم تھا
اور میں مر گیا چپ کر کے
قاتل موجود تھا گواہ بھی تھے
مقتول کیوں مکر گیا چپ کر کے
باب سبھی بند تھے دل کے جہاں
وہ کہاں سے اتر گیا چپ کر کے
جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی
Copy
اور مے پلانے کی بات کرتے ہو مارو گے کیا
تیرا خیال میری نظر سے گزار بھی نہیں
دو گھڑی کی بات تھی پاس ٹھہرا بھی نہیں
سزائے موت کا حکم جاری بھی کر دیا حاکم
کوئی معاملہ تری عدالت میں دھرا بھی نہیں
اور مے پلانے کی بات کرتے ہو مارو گے کیا
پہلا نشہ چشمِ یار کا ابھی اترا بھی نہیں
بخش کر کل عالم کی سلطنیں کہا بشر سے
خالق تو ہوں میں مگر جو ترا نہیں مرا بھی نہیں
گردشِ دوراں میں اک بار زیر تو ہوئے ہیں
جتنا زمانے میں ہوں بدنام اتنا برا بھی نہیں
یہ بھی کچھ کم ستم نہیں کہ فراقِ یار میں
ہچکییں بھی لے رہے ہیں کوئی آنسو گرا بھی نہیں
آج مزاجِ یار برہم ہے انہیں نظر نہ آئیو تم
خالی ہی نہ پلٹ جائے جو کاسہ بھرا بھی نہیں
عجب ہی حالت رہی ہماری ساری عمر جہاں
جیا بھی نہیں گیا مجھ سے اور مرا بھی نہیں
جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی
Copy
وہ یاد نا آئیں اللہ کرےجہاں
جو اپنوں نے درد دیے ہیں
جینے کے قابل نہیں رہے ہیں
وہ یاد نا آئیں اللہ کرےجہاں
بڑی مشکلوں سے بھولے ہیں
اہلِ وفا کے قافلے بتا سکتے ہو
ہجومِ دنیا میں کہاں گئے ہیں
مری جانب دیکھ کر مسکرائے
آج بزم میں بہت دل جلے ہیں
صورت دیکھی دیکھی لگتی ہے
لگتا ہے تم سے کہیں ملے ہیں
جو اب تک جی رہے ہیں جہاں
تیری وفائیں ترے آسرے ہیں
جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی
Copy
ہوں وہی ٹوٹا ہوا جہاں
مر تو گیا ہوں
جی جانے کیوں رہا ہوں
غموں سے رشتہ نہیں
غموں کا دریا ہوں
سب سے وفا کی ہے
میں اتنا برا ہوں
کب کا مر گیا ہوتا
آس پر زندہ ہوں
یاد نہیں فصلِ بہار
مگر تم سے ملا ہوں
ہوں وہی ٹوٹا ہوا جہاں
ہاں چہرہ نیا ہوں
جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی
Copy
وہ بھولی سی لڑکی
وہ بھولی بھالی سی لڑکی
اسے کیا پتہ تھا؟
عشق کیا بلا ہے؟
کسی کے خواب
آنکھوں میں سجا کر
وہ خوشی سے مچلتی
تتلیوں کی طرح اڑتی
آسمانوں کی سیر کرتی
جانے اس کے من میں کون تھا؟
وہ اکیلی اس سے باتیں کرتی
جیسے کسی کی محبت میں
کوئی پاگل ہو جائے
اس نے تو
یہی سن رکھا تھاکے
عشق وہ جل ہے
جہاں سب کی پیاس بجھتی ہے
وہ گھر ہے جہاں صرف
سکون ہے
وہ زندگی ہے
جہاں صرف زندگی ہے
مگر وہ بھولی سی لڑکی
تھوڑی عقل کی کچی تھی
جیسے چھوٹی سی بچی ہو
اسے کیا پتہ تھا
عشق کیا بلا ہے
جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی
Copy
قلب اور عقل
سائل قلب اک دن عقل سے ہوا
اپنے انداز گفتار میں کہنے لگا
کے کیا تمہیں عشق کی ہے کوئی خبر?
کے وہ رہتا ہے کہاں کدھر?
مجھے تو بہت اچھا لگتا ہے
ہے تھوڑا سخت مگر بھلا لگتا ہے
کہا عقل نے مجھے تو اسکا پتہ نہیں
ویسے بھی سنا ہے اچھا نہیں
وہ جسے بھی ہوا مار دیتا ہے
زخم پر زخم ہزار دیتا ہے
کسی کو سولی پر چڑھا دیتا ہے
کسی کو دریاؤں میں بہا دیتا ہے
مجنوں کا تم نے حال نہ دیکھا
لیلی کا واسطےکہاں کہاں نہ پھرا
ہیر رانجھے کی بھی داستاں نہ سنی
کے اس نے کیا کیا نہ سزا دی
زلیخا کو بھی اس نے بدنام کیا
عشق نے ہمیشہ یہی کام کیا
ابن علی کا قنبہ بھی لٹایا عشق نے
انہیں در بدر بھی پھرایا عشق نے
کہا قلب نے چپ ہو جا تم ابھی ناداں ہو
کبھی کبھی گہرائی سے بھی سوچ لیا کرو
یہ سن کر عقل سہم کر چپ ہوئی
اور دل کی باتیں سننے لگی
کیا کہا کے وہ اچھا نہیں ہے
مجھ سے پوچھ اس سا کوئی بھلا نہیں ہے
تھیک ہے زخم پر زخم ہزار دیتا ہے
مگر وہی لازوال قرار دیتا ہے
سولی پر چڑایا مگر رضا کس کی تھی
منصور میں اناالحق کی صدا کس کی تھی
مجنوں اپنا آپ لٹا کر بھی ناملال تھا
وہ سب کچھ بھلا کر بھی ناملال تھا
عشق نہ ہوتا تو رانجھے کو فقیری کہاں ملتی
لامکاں کی سیر نہ کرتا دلگیری کہاں ملتی
عشق نے کب کہا تھا اپنے گھر کی قربانی دو
قاسم و اکبر کڑیل کی جوانی دو
عشق کی لگی گر زلیخا کو نہ لگتی
بادشاہ مصر یوسف تلک کہاں پہنچتی
سن جو کوئی عشق کی نظر ہو جاتا ہے
کسی کے واسطے گوارہ دربدر ہو جاتا ہے
عشق سے جو ربط رکھے اسے امر کر دیتا ہے
رتبہ ستاروں میں مثل قمر کر دیتا ہے
بندے کو خدا سے ملاتا ہے عشق
لامکان کی سیر کراتا ہے عشق
میری نظر سے دیکھو قرآن کی ہر بات عشق
قرآن تو قرآن رب کی ذات عشق
یہ سن کر عقل نے سر تسلیمِ خم کر دیا
اور اپنی عدالت سے اسے بے جرم کر دیا
جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی
Copy
تجھے اختیار ہے
میں نے تم سے محبت کی ہے
تو مجھے سزا دے تجھے اختیار ہے
تو خدا کے حضور سجدوں میں
محو ہو کر دعا دے تجھے اختیار ہے
لوگ بھی تو بھول جاتے ہیں
تو جو بھلا دے تجھے اختیار ہے
دل پر خنجر کی طرح جا لگے
کوئی زخم ایسا دے تجھے اختیار ہے
مرے دل پر تیری حکومت ہے
تو جیسا صلہ دے تجھے اختیار ہے
جہانزیب اسلم کنجاہی
Copy
بھول ہوئی دل لگا کر جہاں
ہواؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
تیری اداؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
بچنا مشکل ہے شاید میرا
جو قضاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
رستے اور بھی بہت تھے مگر
جانے کیوں صحراؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
آج میں نہیں یا تمنائیں نہیں
آج میں تمناؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
خدا بچائے امتحاں کٹھن ہے
میں قطرہ دریاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
بھول ہوئی دل لگا کر جہاں
کہاں بےوفاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
جہانزیب کنجاہی دمشقی
Copy
میرا چاند نکلا چودھویں کا
ٹوٹ کر تارہ بکھر گیا
زمیں پر اتارا بکھر گیا
چند لمحوں کی کہانی
قصہ ہمارا تمہارا بکھر گیا
بات بات پر مسکرا دیتا
وہ شخص بچارا بکھر گیا
گزرا کچھ یوں فتنہ گر
شہر کا شہر سارا بکھر گیا
میرا۔چاند نکلا چودھویں کا
فضہ میں نظارا بکھر گیا
اس کوچے میں آکر جہاں کو
جب بھی گزارا بکھر گیا
جہانزیب کنجاہی دمشقی
Copy
اے بادِ صبا لوٹ جا
اے بادِ صبا لوٹ جا
رہہ گیا ہوں تنہا لوٹ جا
قفصِ عشق ہےخطرناک
بات مان جا لوٹ جا
نیت بدلنےسے پہلے
چُھپا تن اپنا لوٹ جا
سامنےنہ رہو میرے
پاس آجا یا لوٹ جا
مجرموں کا شہر ہے یہ
خود کو بچا لوٹ جا
رہو قید میں عمر بھر
کہا تھا نہ لوٹ جا
جہانزیب کنجاہی دمشقی
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets