Add Poetry

Poetries by jahanzeb kunjahi

میں کچھ بھی نئی تم پری ہو میں کچھ بھی نئی
تم نازک سی ہو میں کچھ بھی نئی
میں تو آفتاب کی تپش ہوں
تم چاندنی ہو میں کچھ بھی نئی
پھول تجھ سے ہیں یا تم پھولوں سے
خیر جو بھی ہو میں کچھ بھی نئی
تم وہ ہو جو کرتی ہے سیر گل کی
یعنی تم تتلی ہو میں کچھ بھی نئی
تم جمالِ قمر و گل تم قابل محبت
تم ہوا ٹھنڈی ہو میں کچھ بھی نئی
تم مرجان و الماس تم لعل و گہر
تم عنبری عنبری میں کچھ بھی نئی
تم جانِ قرار تم جانِ تمنا تم دل ہو
تم بہت پیاری ہو میں کچھ بھی نئی
تم عبادت تم زندگی تمہی بندگی
تمہی سبھی ہو میں کچھ بھی نئی
تمہی منزل تمہی حاصلِ حیات بھی
بےشک تم ایسی ہو میں کچھ بھی نئی
تم دعا ہو مدعی ہو مدعا ہو تم وفا
تم ہی زندگی ہو میں کچھ بھی نئی
جہاں بھی نظر دڑائی تمہیں دیکھا
بس تمہی تمہی ہو میں کچھ بھی نئی
تم ہدیہ ہو خدا کی طرف سے
تم عطا خدا کی ہو میں کچھ بھی نئی
سینے میں دل کی جگہ تم دھڑکتی ہو
تم حاصلِ ہر خوشی ہو میں کچھ بھی نئی
تم قاتل بھی ہو تم آبِ حیات بھی
تم یہ بھی تم وہ بھی ہو میں کچھ بھی نئی
تم عشق بھی ہو رستہ بھی منزل بھی
تم شاعری تم عاشقی ہو میں کچھ بھی نئی
تم صبح کی ملکہ تم دن کی روشنی
تم رات کی رانی ہو میں کچھ بھی نئی
تم راتوں کا چین تم صبح کی تازگی
تم مشکل میں آسانی ہو میں کچھ بھی نئی
تم مختصر سا قصہ بھی ہو اور تم ہی
طویل کہانی ہو میں کچھ بھی نئی
جہاں چلو اب اختتامِ کلام کر دیں
سب کچھ تمہی ہو میں کچھ بھی نئی
جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی
قلب اور عقل سائل قلب اک دن عقل سے ہوا
اپنے انداز گفتار میں کہنے لگا
کے کیا تمہیں عشق کی ہے کوئی خبر?
کے وہ رہتا ہے کہاں کدھر?
مجھے تو بہت اچھا لگتا ہے
ہے تھوڑا سخت مگر بھلا لگتا ہے
کہا عقل نے مجھے تو اسکا پتہ نہیں
ویسے بھی سنا ہے اچھا نہیں
وہ جسے بھی ہوا مار دیتا ہے
زخم پر زخم ہزار دیتا ہے
کسی کو سولی پر چڑھا دیتا ہے
کسی کو دریاؤں میں بہا دیتا ہے
مجنوں کا تم نے حال نہ دیکھا
لیلی کا واسطےکہاں کہاں نہ پھرا
ہیر رانجھے کی بھی داستاں نہ سنی
کے اس نے کیا کیا نہ سزا دی
زلیخا کو بھی اس نے بدنام کیا
عشق نے ہمیشہ یہی کام کیا
ابن علی کا قنبہ بھی لٹایا عشق نے
انہیں در بدر بھی پھرایا عشق نے
کہا قلب نے چپ ہو جا تم ابھی ناداں ہو
کبھی کبھی گہرائی سے بھی سوچ لیا کرو
یہ سن کر عقل سہم کر چپ ہوئی
اور دل کی باتیں سننے لگی
کیا کہا کے وہ اچھا نہیں ہے
مجھ سے پوچھ اس سا کوئی بھلا نہیں ہے
تھیک ہے زخم پر زخم ہزار دیتا ہے
مگر وہی لازوال قرار دیتا ہے
سولی پر چڑایا مگر رضا کس کی تھی
منصور میں اناالحق کی صدا کس کی تھی
مجنوں اپنا آپ لٹا کر بھی ناملال تھا
وہ سب کچھ بھلا کر بھی ناملال تھا
عشق نہ ہوتا تو رانجھے کو فقیری کہاں ملتی
لامکاں کی سیر نہ کرتا دلگیری کہاں ملتی
عشق نے کب کہا تھا اپنے گھر کی قربانی دو
قاسم و اکبر کڑیل کی جوانی دو
عشق کی لگی گر زلیخا کو نہ لگتی
بادشاہ مصر یوسف تلک کہاں پہنچتی
سن جو کوئی عشق کی نظر ہو جاتا ہے
کسی کے واسطے گوارہ دربدر ہو جاتا ہے
عشق سے جو ربط رکھے اسے امر کر دیتا ہے
رتبہ ستاروں میں مثل قمر کر دیتا ہے
بندے کو خدا سے ملاتا ہے عشق
لامکان کی سیر کراتا ہے عشق
میری نظر سے دیکھو قرآن کی ہر بات عشق
قرآن تو قرآن رب کی ذات عشق
یہ سن کر عقل نے سر تسلیمِ خم کر دیا
اور اپنی عدالت سے اسے بے جرم کر دیا

 
جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی
Famous Poets
View More Poets