Poetries by jahanzeb kunjahi
نسبتِ بنتِ حوا تھی ورنہ کسی سے اب کوئی گلہ ہی نہیں
کیوں کہ اپنا کوئی رہا ہی نہیں
ملنا تو چاہیے تھا دوبارہ
تو یوں بچھڑا کہ پھر ملا ہی نہیں
نسبتِ بنتِ حوا تھی ورنہ
مجھ سا کوئی درندہ تھا ہی نہیں
میرا کوئی پتہ کرو کہ مرا
کسی کو آج تک پتہ ہی نہیں
آئینہ میں ہوں یا میں آئینہ ہوں
میں نہیں ہوں یا آئینہ ہی نہیں
خاک تم دل جلانے والے ہو
کہ مرا تم سے دل جلا ہی نہیں
تم سے کیسے ملوں کہ میں تو کبھی
خود کو بھی بھول سے ملا ہی نہیں
ایک ہی حادثہ ہے یعنی تو
اور وہ بھی ہم سے بھولتا ہی نہیں jahanzeb kunjahi
کیوں کہ اپنا کوئی رہا ہی نہیں
ملنا تو چاہیے تھا دوبارہ
تو یوں بچھڑا کہ پھر ملا ہی نہیں
نسبتِ بنتِ حوا تھی ورنہ
مجھ سا کوئی درندہ تھا ہی نہیں
میرا کوئی پتہ کرو کہ مرا
کسی کو آج تک پتہ ہی نہیں
آئینہ میں ہوں یا میں آئینہ ہوں
میں نہیں ہوں یا آئینہ ہی نہیں
خاک تم دل جلانے والے ہو
کہ مرا تم سے دل جلا ہی نہیں
تم سے کیسے ملوں کہ میں تو کبھی
خود کو بھی بھول سے ملا ہی نہیں
ایک ہی حادثہ ہے یعنی تو
اور وہ بھی ہم سے بھولتا ہی نہیں jahanzeb kunjahi
میں اک ٹوٹا ہوا سا گھر ہوں میں اک ٹوٹا ہوا سا گھر ہوں
مجھ میں کوئی رہے گا کیوں کر جہانزیب کُنجاہی شامی
مجھ میں کوئی رہے گا کیوں کر جہانزیب کُنجاہی شامی
تُف شکوائے یار پر کہ پسِ مرگ اک عمر بیتی سکوں پانے کے لیے
زندگی جھیلی ہے مرجانے کے لیے
ضروری تھا کے ہم پاگل ہوجائیں
یہی صورت نکلی بھلانے کے لیے
آپ بے وفائی گر نا کرتے ہم سے
کہاں داستاں لکھتا زمانے کے لیے
نا حدِ خنجر دکھائیں کہ بےرخی
بس کافی ہے ہمیں ڈھانے کے لیے
تیر سینے سے آر پار کر دیا ہمارے
اک تنکا تھا چرایا آشیانے کے لیے
تف شکوائے یار پر کہ پس مرگِ
گلے اٹھا لائے ہیں سنانے کے لیے
ہم روٹھ بھی جائیں ان سے مگر
وہ کہاں آئیں گے منانے کے لیے
آپ تشریف لائیں کے آپ کے قدم
ضروری ہیں ہمارے آستانے کے لیے
ہمارے سامنے غیر ہاتھ تھام لیا
انہیں اور نا سوجھی جلانے کے لیے
آپ سامنے آئیں ہمیں جینا ہے جہاں
مریض کو دوا چاہے شفا پانے کے لیے
jahanzeb kunjahi
زندگی جھیلی ہے مرجانے کے لیے
ضروری تھا کے ہم پاگل ہوجائیں
یہی صورت نکلی بھلانے کے لیے
آپ بے وفائی گر نا کرتے ہم سے
کہاں داستاں لکھتا زمانے کے لیے
نا حدِ خنجر دکھائیں کہ بےرخی
بس کافی ہے ہمیں ڈھانے کے لیے
تیر سینے سے آر پار کر دیا ہمارے
اک تنکا تھا چرایا آشیانے کے لیے
تف شکوائے یار پر کہ پس مرگِ
گلے اٹھا لائے ہیں سنانے کے لیے
ہم روٹھ بھی جائیں ان سے مگر
وہ کہاں آئیں گے منانے کے لیے
آپ تشریف لائیں کے آپ کے قدم
ضروری ہیں ہمارے آستانے کے لیے
ہمارے سامنے غیر ہاتھ تھام لیا
انہیں اور نا سوجھی جلانے کے لیے
آپ سامنے آئیں ہمیں جینا ہے جہاں
مریض کو دوا چاہے شفا پانے کے لیے
jahanzeb kunjahi
میں نقطہ نظر سمجھایا گیا ہوں قطرہ قطرہ لایا گیا ہوں
صحراؤں میں برسایا گیا ہوں
کن سے لوح پر لکھوایا گیا ہوں
کن سے ہی مٹایا گیا ہوں
عشقِ مجازی میں تعمیر ہوا
عشقِ حقیقی میں ڈھایا گیا ہوں
تعبیرِ خوابِ پدر کی خاطر
سرِ خنجرِ خلیل آزمایا گیا ہوں
شہر شہر نگر نگر گلی گلی
قریہ قریہ رولایا گیا ہوں
تقاضائے ادب جرأتِ کلام نا کرنا
بڑی خامشی سے ستایا گیا ہوں
بصورتِ قیس لبادائے عشق میں
لیلی کی خاطر تماشایا گیا ہوں
سرِ عرش نور سے نہلایا گیا ہوں
سرِ فرش تہہِ خاک سلایا گیا ہوں
لغزش فقط خِطَّائے ربانی تھا
فردوس سے نکلا نہیں نکلوایا گیا ہوں
آتشِ نمرود میں گرایا گیا ہوں
کبھی صلیبوں پر لٹکایا گیا ہوں
مجسمائے طینی میں تخلیقِ نور
محدود مدت تک لایا گیا ہوں
آرائشِ کائنات میں مثلِ شمع
روشنی کے لیے جلایا گیا ہوں
ملائک وجن و خلق تمام کو
میں نقطہ نظر سمجھایا گیا ہوں
jahanzeb kunjahi
صحراؤں میں برسایا گیا ہوں
کن سے لوح پر لکھوایا گیا ہوں
کن سے ہی مٹایا گیا ہوں
عشقِ مجازی میں تعمیر ہوا
عشقِ حقیقی میں ڈھایا گیا ہوں
تعبیرِ خوابِ پدر کی خاطر
سرِ خنجرِ خلیل آزمایا گیا ہوں
شہر شہر نگر نگر گلی گلی
قریہ قریہ رولایا گیا ہوں
تقاضائے ادب جرأتِ کلام نا کرنا
بڑی خامشی سے ستایا گیا ہوں
بصورتِ قیس لبادائے عشق میں
لیلی کی خاطر تماشایا گیا ہوں
سرِ عرش نور سے نہلایا گیا ہوں
سرِ فرش تہہِ خاک سلایا گیا ہوں
لغزش فقط خِطَّائے ربانی تھا
فردوس سے نکلا نہیں نکلوایا گیا ہوں
آتشِ نمرود میں گرایا گیا ہوں
کبھی صلیبوں پر لٹکایا گیا ہوں
مجسمائے طینی میں تخلیقِ نور
محدود مدت تک لایا گیا ہوں
آرائشِ کائنات میں مثلِ شمع
روشنی کے لیے جلایا گیا ہوں
ملائک وجن و خلق تمام کو
میں نقطہ نظر سمجھایا گیا ہوں
jahanzeb kunjahi
کسی سے شکوہ کیوں کریں ہم کسی سے شکوہ کیوں کریں ہم
کسی کا گلہ کیوں کریں ہم
ایک بار تو آزما چکے ہیں
اب یقیں دوبارہ کیوں کریں ہم
تمنا ہی تمہیں پانے کی کی ہے
غیر کا تقاضہ کیوں کریں ہم
جہاں کام اشاروں سے چلتا ہو
وہاں ہاتھ پسارا کیوں کریں ہم
جمال جھیلے ہیں یہی کافی ہے
تمہارے ناز گوارہ کیوں کریں ہم
تم کسی کے ہو تمہیں چھین کر
زبردستی اپنا کیوں کریں ہم
جینے کی وجہ نہیں رہی تو
مرنے کی تمنا کیوں کریں ہم
تم نہیں ملے تو نہ سہی
اپنا حال برا کیوں کریں ہم
جب پتہ ہے آتش ہے عشق
پھر دوستانہ کیوں کریں ہم
بلاوجہ کیوں مرجائیں کسی پر
بلاوجہ یہ خطا کیوں کریں ہم
تمہاری خاطر کیوں لڑیں ہم
خدا سے جھگڑا کیوں کریں ہم
ایک دو غم ہو تو سہہ لیں
عمر بھر گزارہ کیوں کریں ہم
jahanzeb kunjahi
کسی کا گلہ کیوں کریں ہم
ایک بار تو آزما چکے ہیں
اب یقیں دوبارہ کیوں کریں ہم
تمنا ہی تمہیں پانے کی کی ہے
غیر کا تقاضہ کیوں کریں ہم
جہاں کام اشاروں سے چلتا ہو
وہاں ہاتھ پسارا کیوں کریں ہم
جمال جھیلے ہیں یہی کافی ہے
تمہارے ناز گوارہ کیوں کریں ہم
تم کسی کے ہو تمہیں چھین کر
زبردستی اپنا کیوں کریں ہم
جینے کی وجہ نہیں رہی تو
مرنے کی تمنا کیوں کریں ہم
تم نہیں ملے تو نہ سہی
اپنا حال برا کیوں کریں ہم
جب پتہ ہے آتش ہے عشق
پھر دوستانہ کیوں کریں ہم
بلاوجہ کیوں مرجائیں کسی پر
بلاوجہ یہ خطا کیوں کریں ہم
تمہاری خاطر کیوں لڑیں ہم
خدا سے جھگڑا کیوں کریں ہم
ایک دو غم ہو تو سہہ لیں
عمر بھر گزارہ کیوں کریں ہم
jahanzeb kunjahi
کئیں پاگل ہوئے کئیں کے سر گئے تیری پناہ میں آئے تو سنور گئے
مقام اتنے ملے خوشی سے مر گئے
وہ جن کا چرچا کوبکو کیا ہم نے
ہائے وہ مجھے دیکھ کر مکر گئے
نظر کے سامنے ہی رہتا ہے ہر پل
وہ آئے یہ گئے اِدھر آئے اُدھر گئے
تمہارے سب سوال تھے قاتلانہ
ہم خوشی خوشی صبر کر گئے
تمہیں دیکھ کر کئیں مچل گئے
کئی پاگل ہوئے کئیں کے سر گئے
ہم بنا کاٹھ کے گھوڑا ہیں جناب
ہمارے چاہنے والے سب گزر گئے
بڑا افسوس ہوا یہ سن کر جہاں
کے ہم آج ان کے دل سے اتر گئے جہانزیب کُنجاہی دمشقی
مقام اتنے ملے خوشی سے مر گئے
وہ جن کا چرچا کوبکو کیا ہم نے
ہائے وہ مجھے دیکھ کر مکر گئے
نظر کے سامنے ہی رہتا ہے ہر پل
وہ آئے یہ گئے اِدھر آئے اُدھر گئے
تمہارے سب سوال تھے قاتلانہ
ہم خوشی خوشی صبر کر گئے
تمہیں دیکھ کر کئیں مچل گئے
کئی پاگل ہوئے کئیں کے سر گئے
ہم بنا کاٹھ کے گھوڑا ہیں جناب
ہمارے چاہنے والے سب گزر گئے
بڑا افسوس ہوا یہ سن کر جہاں
کے ہم آج ان کے دل سے اتر گئے جہانزیب کُنجاہی دمشقی
میں کچھ بھی نئی تم پری ہو میں کچھ بھی نئی
تم نازک سی ہو میں کچھ بھی نئی
میں تو آفتاب کی تپش ہوں
تم چاندنی ہو میں کچھ بھی نئی
پھول تجھ سے ہیں یا تم پھولوں سے
خیر جو بھی ہو میں کچھ بھی نئی
تم وہ ہو جو کرتی ہے سیر گل کی
یعنی تم تتلی ہو میں کچھ بھی نئی
تم جمالِ قمر و گل تم قابل محبت
تم ہوا ٹھنڈی ہو میں کچھ بھی نئی
تم مرجان و الماس تم لعل و گہر
تم عنبری عنبری میں کچھ بھی نئی
تم جانِ قرار تم جانِ تمنا تم دل ہو
تم بہت پیاری ہو میں کچھ بھی نئی
تم عبادت تم زندگی تمہی بندگی
تمہی سبھی ہو میں کچھ بھی نئی
تمہی منزل تمہی حاصلِ حیات بھی
بےشک تم ایسی ہو میں کچھ بھی نئی
تم دعا ہو مدعی ہو مدعا ہو تم وفا
تم ہی زندگی ہو میں کچھ بھی نئی
جہاں بھی نظر دڑائی تمہیں دیکھا
بس تمہی تمہی ہو میں کچھ بھی نئی
تم ہدیہ ہو خدا کی طرف سے
تم عطا خدا کی ہو میں کچھ بھی نئی
سینے میں دل کی جگہ تم دھڑکتی ہو
تم حاصلِ ہر خوشی ہو میں کچھ بھی نئی
تم قاتل بھی ہو تم آبِ حیات بھی
تم یہ بھی تم وہ بھی ہو میں کچھ بھی نئی
تم عشق بھی ہو رستہ بھی منزل بھی
تم شاعری تم عاشقی ہو میں کچھ بھی نئی
تم صبح کی ملکہ تم دن کی روشنی
تم رات کی رانی ہو میں کچھ بھی نئی
تم راتوں کا چین تم صبح کی تازگی
تم مشکل میں آسانی ہو میں کچھ بھی نئی
تم مختصر سا قصہ بھی ہو اور تم ہی
طویل کہانی ہو میں کچھ بھی نئی
جہاں چلو اب اختتامِ کلام کر دیں
سب کچھ تمہی ہو میں کچھ بھی نئی جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی
تم نازک سی ہو میں کچھ بھی نئی
میں تو آفتاب کی تپش ہوں
تم چاندنی ہو میں کچھ بھی نئی
پھول تجھ سے ہیں یا تم پھولوں سے
خیر جو بھی ہو میں کچھ بھی نئی
تم وہ ہو جو کرتی ہے سیر گل کی
یعنی تم تتلی ہو میں کچھ بھی نئی
تم جمالِ قمر و گل تم قابل محبت
تم ہوا ٹھنڈی ہو میں کچھ بھی نئی
تم مرجان و الماس تم لعل و گہر
تم عنبری عنبری میں کچھ بھی نئی
تم جانِ قرار تم جانِ تمنا تم دل ہو
تم بہت پیاری ہو میں کچھ بھی نئی
تم عبادت تم زندگی تمہی بندگی
تمہی سبھی ہو میں کچھ بھی نئی
تمہی منزل تمہی حاصلِ حیات بھی
بےشک تم ایسی ہو میں کچھ بھی نئی
تم دعا ہو مدعی ہو مدعا ہو تم وفا
تم ہی زندگی ہو میں کچھ بھی نئی
جہاں بھی نظر دڑائی تمہیں دیکھا
بس تمہی تمہی ہو میں کچھ بھی نئی
تم ہدیہ ہو خدا کی طرف سے
تم عطا خدا کی ہو میں کچھ بھی نئی
سینے میں دل کی جگہ تم دھڑکتی ہو
تم حاصلِ ہر خوشی ہو میں کچھ بھی نئی
تم قاتل بھی ہو تم آبِ حیات بھی
تم یہ بھی تم وہ بھی ہو میں کچھ بھی نئی
تم عشق بھی ہو رستہ بھی منزل بھی
تم شاعری تم عاشقی ہو میں کچھ بھی نئی
تم صبح کی ملکہ تم دن کی روشنی
تم رات کی رانی ہو میں کچھ بھی نئی
تم راتوں کا چین تم صبح کی تازگی
تم مشکل میں آسانی ہو میں کچھ بھی نئی
تم مختصر سا قصہ بھی ہو اور تم ہی
طویل کہانی ہو میں کچھ بھی نئی
جہاں چلو اب اختتامِ کلام کر دیں
سب کچھ تمہی ہو میں کچھ بھی نئی جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی
اور میں مر گیا چپ کر کے مرا یار مرا ہم نشینِ محفل
قریب سے گزر گیا چپ کر کے
نہ شور شرابہ نہ تماشہ کیا
ٹوٹ کر بکھر گیا چپ کر کے
دنیا میں تو کہیں سکوں نہیں
آخر وہ کدھر گیا چپ کر کے
حکمِ یار میں مرنے کا حکم تھا
اور میں مر گیا چپ کر کے
قاتل موجود تھا گواہ بھی تھے
مقتول کیوں مکر گیا چپ کر کے
باب سبھی بند تھے دل کے جہاں
وہ کہاں سے اتر گیا چپ کر کے جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی
قریب سے گزر گیا چپ کر کے
نہ شور شرابہ نہ تماشہ کیا
ٹوٹ کر بکھر گیا چپ کر کے
دنیا میں تو کہیں سکوں نہیں
آخر وہ کدھر گیا چپ کر کے
حکمِ یار میں مرنے کا حکم تھا
اور میں مر گیا چپ کر کے
قاتل موجود تھا گواہ بھی تھے
مقتول کیوں مکر گیا چپ کر کے
باب سبھی بند تھے دل کے جہاں
وہ کہاں سے اتر گیا چپ کر کے جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی
اور مے پلانے کی بات کرتے ہو مارو گے کیا تیرا خیال میری نظر سے گزار بھی نہیں
دو گھڑی کی بات تھی پاس ٹھہرا بھی نہیں
سزائے موت کا حکم جاری بھی کر دیا حاکم
کوئی معاملہ تری عدالت میں دھرا بھی نہیں
اور مے پلانے کی بات کرتے ہو مارو گے کیا
پہلا نشہ چشمِ یار کا ابھی اترا بھی نہیں
بخش کر کل عالم کی سلطنیں کہا بشر سے
خالق تو ہوں میں مگر جو ترا نہیں مرا بھی نہیں
گردشِ دوراں میں اک بار زیر تو ہوئے ہیں
جتنا زمانے میں ہوں بدنام اتنا برا بھی نہیں
یہ بھی کچھ کم ستم نہیں کہ فراقِ یار میں
ہچکییں بھی لے رہے ہیں کوئی آنسو گرا بھی نہیں
آج مزاجِ یار برہم ہے انہیں نظر نہ آئیو تم
خالی ہی نہ پلٹ جائے جو کاسہ بھرا بھی نہیں
عجب ہی حالت رہی ہماری ساری عمر جہاں
جیا بھی نہیں گیا مجھ سے اور مرا بھی نہیں
جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی
دو گھڑی کی بات تھی پاس ٹھہرا بھی نہیں
سزائے موت کا حکم جاری بھی کر دیا حاکم
کوئی معاملہ تری عدالت میں دھرا بھی نہیں
اور مے پلانے کی بات کرتے ہو مارو گے کیا
پہلا نشہ چشمِ یار کا ابھی اترا بھی نہیں
بخش کر کل عالم کی سلطنیں کہا بشر سے
خالق تو ہوں میں مگر جو ترا نہیں مرا بھی نہیں
گردشِ دوراں میں اک بار زیر تو ہوئے ہیں
جتنا زمانے میں ہوں بدنام اتنا برا بھی نہیں
یہ بھی کچھ کم ستم نہیں کہ فراقِ یار میں
ہچکییں بھی لے رہے ہیں کوئی آنسو گرا بھی نہیں
آج مزاجِ یار برہم ہے انہیں نظر نہ آئیو تم
خالی ہی نہ پلٹ جائے جو کاسہ بھرا بھی نہیں
عجب ہی حالت رہی ہماری ساری عمر جہاں
جیا بھی نہیں گیا مجھ سے اور مرا بھی نہیں
جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی
وہ یاد نا آئیں اللہ کرےجہاں جو اپنوں نے درد دیے ہیں
جینے کے قابل نہیں رہے ہیں
وہ یاد نا آئیں اللہ کرےجہاں
بڑی مشکلوں سے بھولے ہیں
اہلِ وفا کے قافلے بتا سکتے ہو
ہجومِ دنیا میں کہاں گئے ہیں
مری جانب دیکھ کر مسکرائے
آج بزم میں بہت دل جلے ہیں
صورت دیکھی دیکھی لگتی ہے
لگتا ہے تم سے کہیں ملے ہیں
جو اب تک جی رہے ہیں جہاں
تیری وفائیں ترے آسرے ہیں
جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی
جینے کے قابل نہیں رہے ہیں
وہ یاد نا آئیں اللہ کرےجہاں
بڑی مشکلوں سے بھولے ہیں
اہلِ وفا کے قافلے بتا سکتے ہو
ہجومِ دنیا میں کہاں گئے ہیں
مری جانب دیکھ کر مسکرائے
آج بزم میں بہت دل جلے ہیں
صورت دیکھی دیکھی لگتی ہے
لگتا ہے تم سے کہیں ملے ہیں
جو اب تک جی رہے ہیں جہاں
تیری وفائیں ترے آسرے ہیں
جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی
وہ بھولی سی لڑکی وہ بھولی بھالی سی لڑکی
اسے کیا پتہ تھا؟
عشق کیا بلا ہے؟
کسی کے خواب
آنکھوں میں سجا کر
وہ خوشی سے مچلتی
تتلیوں کی طرح اڑتی
آسمانوں کی سیر کرتی
جانے اس کے من میں کون تھا؟
وہ اکیلی اس سے باتیں کرتی
جیسے کسی کی محبت میں
کوئی پاگل ہو جائے
اس نے تو
یہی سن رکھا تھاکے
عشق وہ جل ہے
جہاں سب کی پیاس بجھتی ہے
وہ گھر ہے جہاں صرف
سکون ہے
وہ زندگی ہے
جہاں صرف زندگی ہے
مگر وہ بھولی سی لڑکی
تھوڑی عقل کی کچی تھی
جیسے چھوٹی سی بچی ہو
اسے کیا پتہ تھا
عشق کیا بلا ہے
جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی
اسے کیا پتہ تھا؟
عشق کیا بلا ہے؟
کسی کے خواب
آنکھوں میں سجا کر
وہ خوشی سے مچلتی
تتلیوں کی طرح اڑتی
آسمانوں کی سیر کرتی
جانے اس کے من میں کون تھا؟
وہ اکیلی اس سے باتیں کرتی
جیسے کسی کی محبت میں
کوئی پاگل ہو جائے
اس نے تو
یہی سن رکھا تھاکے
عشق وہ جل ہے
جہاں سب کی پیاس بجھتی ہے
وہ گھر ہے جہاں صرف
سکون ہے
وہ زندگی ہے
جہاں صرف زندگی ہے
مگر وہ بھولی سی لڑکی
تھوڑی عقل کی کچی تھی
جیسے چھوٹی سی بچی ہو
اسے کیا پتہ تھا
عشق کیا بلا ہے
جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی
قلب اور عقل سائل قلب اک دن عقل سے ہوا
اپنے انداز گفتار میں کہنے لگا
کے کیا تمہیں عشق کی ہے کوئی خبر?
کے وہ رہتا ہے کہاں کدھر?
مجھے تو بہت اچھا لگتا ہے
ہے تھوڑا سخت مگر بھلا لگتا ہے
کہا عقل نے مجھے تو اسکا پتہ نہیں
ویسے بھی سنا ہے اچھا نہیں
وہ جسے بھی ہوا مار دیتا ہے
زخم پر زخم ہزار دیتا ہے
کسی کو سولی پر چڑھا دیتا ہے
کسی کو دریاؤں میں بہا دیتا ہے
مجنوں کا تم نے حال نہ دیکھا
لیلی کا واسطےکہاں کہاں نہ پھرا
ہیر رانجھے کی بھی داستاں نہ سنی
کے اس نے کیا کیا نہ سزا دی
زلیخا کو بھی اس نے بدنام کیا
عشق نے ہمیشہ یہی کام کیا
ابن علی کا قنبہ بھی لٹایا عشق نے
انہیں در بدر بھی پھرایا عشق نے
کہا قلب نے چپ ہو جا تم ابھی ناداں ہو
کبھی کبھی گہرائی سے بھی سوچ لیا کرو
یہ سن کر عقل سہم کر چپ ہوئی
اور دل کی باتیں سننے لگی
کیا کہا کے وہ اچھا نہیں ہے
مجھ سے پوچھ اس سا کوئی بھلا نہیں ہے
تھیک ہے زخم پر زخم ہزار دیتا ہے
مگر وہی لازوال قرار دیتا ہے
سولی پر چڑایا مگر رضا کس کی تھی
منصور میں اناالحق کی صدا کس کی تھی
مجنوں اپنا آپ لٹا کر بھی ناملال تھا
وہ سب کچھ بھلا کر بھی ناملال تھا
عشق نہ ہوتا تو رانجھے کو فقیری کہاں ملتی
لامکاں کی سیر نہ کرتا دلگیری کہاں ملتی
عشق نے کب کہا تھا اپنے گھر کی قربانی دو
قاسم و اکبر کڑیل کی جوانی دو
عشق کی لگی گر زلیخا کو نہ لگتی
بادشاہ مصر یوسف تلک کہاں پہنچتی
سن جو کوئی عشق کی نظر ہو جاتا ہے
کسی کے واسطے گوارہ دربدر ہو جاتا ہے
عشق سے جو ربط رکھے اسے امر کر دیتا ہے
رتبہ ستاروں میں مثل قمر کر دیتا ہے
بندے کو خدا سے ملاتا ہے عشق
لامکان کی سیر کراتا ہے عشق
میری نظر سے دیکھو قرآن کی ہر بات عشق
قرآن تو قرآن رب کی ذات عشق
یہ سن کر عقل نے سر تسلیمِ خم کر دیا
اور اپنی عدالت سے اسے بے جرم کر دیا
جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی
اپنے انداز گفتار میں کہنے لگا
کے کیا تمہیں عشق کی ہے کوئی خبر?
کے وہ رہتا ہے کہاں کدھر?
مجھے تو بہت اچھا لگتا ہے
ہے تھوڑا سخت مگر بھلا لگتا ہے
کہا عقل نے مجھے تو اسکا پتہ نہیں
ویسے بھی سنا ہے اچھا نہیں
وہ جسے بھی ہوا مار دیتا ہے
زخم پر زخم ہزار دیتا ہے
کسی کو سولی پر چڑھا دیتا ہے
کسی کو دریاؤں میں بہا دیتا ہے
مجنوں کا تم نے حال نہ دیکھا
لیلی کا واسطےکہاں کہاں نہ پھرا
ہیر رانجھے کی بھی داستاں نہ سنی
کے اس نے کیا کیا نہ سزا دی
زلیخا کو بھی اس نے بدنام کیا
عشق نے ہمیشہ یہی کام کیا
ابن علی کا قنبہ بھی لٹایا عشق نے
انہیں در بدر بھی پھرایا عشق نے
کہا قلب نے چپ ہو جا تم ابھی ناداں ہو
کبھی کبھی گہرائی سے بھی سوچ لیا کرو
یہ سن کر عقل سہم کر چپ ہوئی
اور دل کی باتیں سننے لگی
کیا کہا کے وہ اچھا نہیں ہے
مجھ سے پوچھ اس سا کوئی بھلا نہیں ہے
تھیک ہے زخم پر زخم ہزار دیتا ہے
مگر وہی لازوال قرار دیتا ہے
سولی پر چڑایا مگر رضا کس کی تھی
منصور میں اناالحق کی صدا کس کی تھی
مجنوں اپنا آپ لٹا کر بھی ناملال تھا
وہ سب کچھ بھلا کر بھی ناملال تھا
عشق نہ ہوتا تو رانجھے کو فقیری کہاں ملتی
لامکاں کی سیر نہ کرتا دلگیری کہاں ملتی
عشق نے کب کہا تھا اپنے گھر کی قربانی دو
قاسم و اکبر کڑیل کی جوانی دو
عشق کی لگی گر زلیخا کو نہ لگتی
بادشاہ مصر یوسف تلک کہاں پہنچتی
سن جو کوئی عشق کی نظر ہو جاتا ہے
کسی کے واسطے گوارہ دربدر ہو جاتا ہے
عشق سے جو ربط رکھے اسے امر کر دیتا ہے
رتبہ ستاروں میں مثل قمر کر دیتا ہے
بندے کو خدا سے ملاتا ہے عشق
لامکان کی سیر کراتا ہے عشق
میری نظر سے دیکھو قرآن کی ہر بات عشق
قرآن تو قرآن رب کی ذات عشق
یہ سن کر عقل نے سر تسلیمِ خم کر دیا
اور اپنی عدالت سے اسے بے جرم کر دیا
جہانزیب اسلم کنجاہی دمشقی
تجھے اختیار ہے میں نے تم سے محبت کی ہے
تو مجھے سزا دے تجھے اختیار ہے
تو خدا کے حضور سجدوں میں
محو ہو کر دعا دے تجھے اختیار ہے
لوگ بھی تو بھول جاتے ہیں
تو جو بھلا دے تجھے اختیار ہے
دل پر خنجر کی طرح جا لگے
کوئی زخم ایسا دے تجھے اختیار ہے
مرے دل پر تیری حکومت ہے
تو جیسا صلہ دے تجھے اختیار ہے جہانزیب اسلم کنجاہی
تو مجھے سزا دے تجھے اختیار ہے
تو خدا کے حضور سجدوں میں
محو ہو کر دعا دے تجھے اختیار ہے
لوگ بھی تو بھول جاتے ہیں
تو جو بھلا دے تجھے اختیار ہے
دل پر خنجر کی طرح جا لگے
کوئی زخم ایسا دے تجھے اختیار ہے
مرے دل پر تیری حکومت ہے
تو جیسا صلہ دے تجھے اختیار ہے جہانزیب اسلم کنجاہی
بھول ہوئی دل لگا کر جہاں ہواؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
تیری اداؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
بچنا مشکل ہے شاید میرا
جو قضاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
رستے اور بھی بہت تھے مگر
جانے کیوں صحراؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
آج میں نہیں یا تمنائیں نہیں
آج میں تمناؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
خدا بچائے امتحاں کٹھن ہے
میں قطرہ دریاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
بھول ہوئی دل لگا کر جہاں
کہاں بےوفاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں جہانزیب کنجاہی دمشقی
تیری اداؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
بچنا مشکل ہے شاید میرا
جو قضاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
رستے اور بھی بہت تھے مگر
جانے کیوں صحراؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
آج میں نہیں یا تمنائیں نہیں
آج میں تمناؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
خدا بچائے امتحاں کٹھن ہے
میں قطرہ دریاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
بھول ہوئی دل لگا کر جہاں
کہاں بےوفاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں جہانزیب کنجاہی دمشقی
میرا چاند نکلا چودھویں کا ٹوٹ کر تارہ بکھر گیا
زمیں پر اتارا بکھر گیا
چند لمحوں کی کہانی
قصہ ہمارا تمہارا بکھر گیا
بات بات پر مسکرا دیتا
وہ شخص بچارا بکھر گیا
گزرا کچھ یوں فتنہ گر
شہر کا شہر سارا بکھر گیا
میرا۔چاند نکلا چودھویں کا
فضہ میں نظارا بکھر گیا
اس کوچے میں آکر جہاں کو
جب بھی گزارا بکھر گیا جہانزیب کنجاہی دمشقی
زمیں پر اتارا بکھر گیا
چند لمحوں کی کہانی
قصہ ہمارا تمہارا بکھر گیا
بات بات پر مسکرا دیتا
وہ شخص بچارا بکھر گیا
گزرا کچھ یوں فتنہ گر
شہر کا شہر سارا بکھر گیا
میرا۔چاند نکلا چودھویں کا
فضہ میں نظارا بکھر گیا
اس کوچے میں آکر جہاں کو
جب بھی گزارا بکھر گیا جہانزیب کنجاہی دمشقی