✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
kanwal naveed
Search
Add Poetry
Poetries by kanwal naveed
محبت
بہت برباد کرتی ہے محبت دل میں آباد ہو کر
دل برباد کرتے ہیں جو لوگ دل میں رہتے ہیں
نہیں اختیار رہتا پھر آنسووں پر کچھ بھی اپنا
محبت کا نام سن لیں تو بے اختیار بہتے ہیں
لاکھوں آرذوں کا منبح ہزاروں حسرتوں کا مجموعہ
کوئی چھوٹی سی شے نہیں جسے دل کہتے ہیں
کینسر سے بھی لا علاج ہے یہ جو روگِ محبت ہے
عاشق ہی جانتے ہیں دل پر کیا کیا ستم سہتے ہیں
محبت میں مرد و زن کی کوئی تفریق نہیں ہوتی
یہ نہ اس دنیا کے کنول نہ اُس دنیا کے رہتے ہیں
kanwal naveed
Copy
بے بسی
سوچا جو تمام رات ہم نے اپنی ذات کو
رُوے تمام رات بڑی بے بسی کے ساتھ
دل سیاہ ہے اپنا تو دامن بھی داغدار
کیا کریں؟ کریں جو اس زندگی کے ساتھ
عیب جانتا نہیں کوئی اپنا ہم کو گمان تھا
آئینہ نے دیکھایا آئینہ عمدگی کے ساتھ
کیسے بتائیں گئے رسول میری امتی ہے یہ
مری جا رہی ہوں اس شرمندگی کے ساتھ
جدا ہو کر بھی مجھ سے جدا ہوتا نہیں
نور خدا ہے کیسے مجھ گندگی کے ساتھ
رُوتے ہوئے ہستے ہیں ہم زندگی ہے یہ
غم کو پی رہے ہیں کس دل لگی کے ساتھ
میری ذات سے کنول میرا ایسا ہے سلسلہ
ہوتا نہیں ایسا تو کسی کو کسی کے ساتھ
kanwal naveed
Copy
جی یہ چاہتا ہے میرا
جی یہ چاہتا ہے میرا
چھوڑکر دنیا کی نگری
کوئی نئی دنیا تلاش کروں
راز خود پر فاش کروں
جو کبھی نہ کہہ پائی
وجود کی گہرائی میں
ٹھہرے پانی کی طرح
نہ جانے کب سے ہیں
مگر جب سے ہیں
میں پریشان ہوں
جی یہ چاہتا ہے میرا
تسخیر ذات کی خاطر
تیاگ دوں ہر اک رشتہ
جو باظاہر ہے فرشتہ
حقائق کے انجام سے
جو کوئی دیکھ نہیں پاتا
مگر پریشان رہتا ہے
ہر کوئی جو مسافر ہے
اس خیالی دنیا کا
نہ جانے کیا ہو جائے گا
اگر کھل گئی میری چاہیتیں
میں بھی یہ سوچتی ہوں
کیا گزرے گی اُن پر
جو مجھے سونپ دیے گئے
مگر میرے اپنے ہیں وہ
میں اپنی ذات میں تنہا
اپنے وجود سے لڑ کر
نبھائے جا رہی ہوں جو
اقدار زندگی ہیں میری
جی یہ چاہتا ہے میرا
کہ سونپ دوں ہر رشتہ کو
وجود اس کا میں کامل
جو مجھ میں ہے شامل
کسی نوکیلے خنجر کی طرح
جی یہ چاہتا ہے میرا
کہہ دوں چیخ چیخ کر
میں بھی ہوں یہ جان لو
نہ تھونپو خود کو مجھ پر
نہ اپنی ذات کو مجھ پر
مسلط کر دو ایسے
کہ سانس بھی نہ لے پاوں
جیتے جی ہی مر جاوں
جی یہ چاہتا ہے میرا
زندگی کی تھکن کو اب
جاننے والے میرے سب
جان لیں تو اچھا ہے
جی یہ چاہتا ہے میرا
kanwal naveed
Copy
قید سے رہائی چاہئے مجھے
قید سے رہائی چاہئے مجھے
اپنی ہی رسوائی چاہئے مجھے
جب اپنا آپ ہی دشمن ہو تو
ذہر سی دوائی چاہئے مجھے
سر سری سا خود کو دیکھا ہے
اب اپنی گہرا ئی چاہئے مجھے
کچھ حاصل نہیں ہو ا جب لوگوں سے
خود سے خود نوائی چاہئے مجھے
اِن نظروں نے دھوکا دیا ہے بہت
بصارت سی بینائی چاہئے مجھے
لوگ کہتے رہیں ہے مغرور بہت
لیکن اب تنہائی چاہئے مجھے
فکر فردا چھوڑکر اب نیا آغاز کریں
کنول بس اب فقط دانائی چاہیے مجھے
kanwal naveed
Copy
ایسا بھی کیا ممکن ہے
ایسا بھی کیا ممکن ہے
کہ خود سے پیار جتائیں بھی
خود کو سوچیں مسکرائیں بھی
دل سے غم کے بادل ہٹا لیں
خود کو پاس بٹھائیں بھی
ایسا بھی کیا ممکن ہے
کہہ لیں دل کی بات سبھی
جو کہہ سکے ہوں نہ کبھی
خود کی خواہشیں خود کو سنائیں
دل میں جو ہوں برسوں سے دبی
ایسا بھی کیا ممکن ہے
ہم روئیں اور ہاتھ سہارا دے
روح ہمیں حقائق کا نظارہ دے
تھک ہار کے جب بیٹھے ہوں
تحریک خودی ہمیں دوبارہ دے
ایسا بھی کیا ممکن ہے
جھوٹوں میں سچا بن کہ رہے
معصومیت میں بچہ بن کر رہے
کوئی کیسا ہی برا بن کہ ملے
دل کنول مگر اچھا بن کر رہے
kanwal naveed
Copy
کیا ہو سکتا نہیں
چھو سکتا نہیں تجھے تیرا ہو سکتا نہیں
تجھ کو پا سکتا نہیں تجھ کو کھو سکتا نہیں
جب سے تجھ سے ملا ہو ں میری جان میرا یہ حال ہے
سکون سے جاگ سکتا نہیں چین سے سو سکتا نہیں
جب سے تیری خواہش اس دل میں ہوئی موجزن
کوئی اور تخم خواہش دل میں بو سکتا نہیں
غم سے نڈھال ہو ا درد سے بُرا حال ہے مگر
جب سے تو آنکھ میں آ بسا میں رو سکتا نہیں
پوری نہیں ہوتی وہ خواہش جو دل کا چین ہو
کہنے کو اس دنیا میں کیا ہو سکتا نہیں
فقط مجھ سے اتنا کہا اور وہ پھر جدا ہو گیا
ہوس سی گندگی کو میں دل میں سمو سکتا نہیں
ہر کوئی تو خطا کار ہے کنول نہ ہو مجھ سے جدا
گندگیِ نفس کو کوئی بھی دھو سکتا نہیں
kanwal naveed
Copy
تلاش
کبھی زمین نہیں ملتی تو کبھی آسمان نہیں ملتا
گھر تو مل جاتے ہیں اکثر پیار کا آشیاں نہیں ملتا
تنہائی کی وادی میں سرگرداں ہوں میں بچپن سے
کبھی منزل روٹھتی ہے تو کبھی کارواں نہیں ملتا
قابل بھروسہ قیامت کسی مومن نے نہیں دیکھی
وہ کافر کیا کرے جسے کوئی بھی جہاں نہیں ملتا
ہم جس پر مرتے ہوں وہ بھی تو جان لُٹاتا ہو
خواہش ایسی ہے یہ جس میں کوئی کامران نہیں ملتا
سب کچھ ملتا ہے یہاں بصارت ہو یا گردے ہوں
فقط یہاں جو مر جائے وہ زندہ انسان نہیں ملتا
ہر کوئی دکھی دیکھائی دے مسائل زندگانی سے
جینے کے لیے کیونکر کوئی راستہ آسان نہیں ملتا
کنول یہ تو ممکن ہے کہ انسان بھاگ جائے پوری دنیا سے
خود کو مگر نہ پائے جہاں ،جہاں میں قبرستان نہیں ملتا
kanwal naveed
Copy
آوُ پنچھی آزاد کر دیں
آؤ پنچھی آزاد کر دیں
اِنہیں اِیسے آباد کر دیں
جِیسے ان کا من چاہتا ہے
جِیسے ان کو جینا آتا ہے
ان کے دل کی فریاد سن لیں
پنجرے کے سارے دانے چن لیں
آؤپنچھی آزاد کر دیں
ہمارے بچے بھی پرندے ہی ہیں
جیون ساز کے سازندے ہی ہیں
یہ ہیں دھرتی کے تابندہ ستارے
چھونے دیں اِنہیں آسماں کے کنارے
ان پر سات سُروں کی قید نہ ہو
تخلیق ان کی ناپید نہ ہو
احسان ان پر ایک آدھ کر دیں
آؤُ پنچھی آزاد کر دیں
kanwal naveed
Copy
آج کی بیوی
بیوی بدلی ہے آج کی یہ الزام لگایا جاتا ہے
شوہر کا ہی کیوں ہر کرتوت چھپایا جاتا ہے
جیسا آدمی ہوتا ہے وہ ویسی بیوی پاتا ہے
کہی سنی بات نہیں یہ قرآن ہمیں بتاتا ہے
قرآن کی تعلیم ہر دور میں یکساں چلتی ہے
خوشیوں سے بیوی آدمی کا دامن بھرتی ہے
معاشرے میں بیوی آدمی کی عزت ہوتی ہے
آدمی پاس دولت بیوی کی قسمت ہوتی ہے
ماں کو نوکرنی بنا، بیوی کو سر جو چڑھاتے ہیں
آدمی کو یہ کرتوت ماں باپ ہی تو سکھاتے ہیں
نہ رہیں اگر نہ چاہیں، بندھن ہے یہ کوئی قید نہیں
اک راہ ہمشہ ہے کھلی، راستہ جس کا ناپید نہیں
ریموٹ دبایا جائے و یسی ہی چلتی ٹی وی ہے
جیسا آج کا شوہر ہے ویسی ہی آج کی بیوی ہے
kanwal naveed
Copy
عشق
بہت بے چین رہتے ہیں بہت بے تاب رہتے ہیں
بہت الجھے سے آج کل میرے خواب رہتے ہیں
عشق کی وادی میں رکھ دیا قدم جب سے
مسلط ذات پر میری ہر پل ہی عذاب رہتے ہیں
خواہش کی دلدل میں جو گِرا پھر نہیں اُبھرا
دل اس میں برباد صدا، حالات خراب رہتے ہیں
وہ تمام سوالوں کو اپنے کر کے چل دیا یوں ہی
ہم اِتنا بھی نہ کہہ پائے، ہمارے جواب رہتے ہیں
بہت پارسا لوگوں میں کنولؔ کیوں آن بیٹھی تم
کیا کچھ اب بھی باقی تمہارے ثواب رہتے ہیں
kanwal naveed
Copy
محبت کیسے بدل گئی ہے
سوچ رہی ہوں میں حیران ہوں
محبت کیسے بدل گئی ہے
سو داگر ہیں،تاجر یا پھر لٹیرے
عاشق معشوق دونوں میرے
اپنے آپ کے نہ ہو پائیں
بدلی ہوئی ہیں محبت کی راہیں
دلوں سے نکل کر کدھر گئی ہے
محبت کیوں یا رب بدل گئی ہے
عزیز ہیں نیندیں عزیز جانیں
محبت ہے اِن کو کیسے مانیں
محبت آج عبادت نہیں ہے
محبت کی کسی کو ضرورت نہیں ہے
آسمان کو دیکھتی ہیں نظریں
خدا سے کیوں نہ دعا میں مانگوں
برسات وہی ہے
ہوا وہی ہے
پرندوں کی اَب بھی صدا وہی ہے
بھلے کو آج بھی بھلا ہیں کہتے
بُرے کا مطلب بھی وہی ہے
محبت پھر کیوں بدلی ہے یا رب
محبت کیسے بدل گئی ہے
kanwal naveed
Copy
محبت دُکھ تو دیتی ہے
محبت دُکھ تو دیتی ہے
مگر یہ بھی حقیقت ہے
سکھاتی ہے وہ سب بھی
جو کتابوں میں نہیں ملتا
دیتی ہے وہ سُکھ بھی
جو خوابوں میں نہیں ملتا
عطا کرتی ہے وجد کا سمندر
جس کی طغیانی میں
ڈوب کر اُبھرتی ہیں
عشق حقیقی کی موجیں
زندہ ہوتی ہیں جس سے
انسان کی جستجو کی کھوجیں
محبت دُکھ تو دیتی ہے
مگر یہ بھی حقیقت ہے
دُکھی دل ہی شدت سے
رب کو پکارتا ہے
ہستی کو سنوراتا ہے
کھوجتا ہے وہ راہیں
زندگی کی سزاہیں
جن سے محدود ہوتی ہیں
اس کی مقصود ہوتی ہیں
محبت دُکھ تو دیتی ہے
مگر یہ بھی حقیقت ہے
کہ عاشق جان پاتے ہیں
وہ چھپی ہوئی باتیں
جن سے انجان رہتے ہیں
بڑے بڑے عالم جہاں کے
وہ پہنچ پاتے ہیں رب پاس
بنا سازو سامان کے
نہ کھونے کا کوئی غم
نہ پانے کی لالچ
محبت ہی سکھاتی ہے
یوں وجود مہکاتی ہے
محبت دُکھ تو دیتی ہے
مگر یہ بھی۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔
kanwal naveed
Copy
خوف
گھٹن یہ غضب کی ہے
کچھ کہنا مشکل ہے
بات کرتے کرتے ہم
اکثر رک جاتے ہیں
نہ جانے کوئی کیا سوچے
ہماری ذات میں کیا کھوجے
کہیں کچھ ایسا نہ پا لے
جو ہم چھپانا چاہتے ہیں
کب سے مٹانا چاہتے ہیں
زخم چند رشتوں کے
جو بنا مانگے مل جاتے ہیں
زخم جو ہوں ناسور مگر
ظاہراً سل جاتے ہیں
مرہم سے محروم مگر
دیکھنے میں معدوم مگر
کانچ سے چبھتے ہیں اکثر
روح کو جو بیمار کریں
زندگی کو لاچار کرئی
ہم کچھ کہہ ہی نہیں پاتے
کہ زخموں کو کھرچنے سے
مزید درد ہوتا ہے
درد میں مبتلا ہوتا ہے
جو بھی ہمدرد ہوتا ہے
مگر ہماری خاموشی کو
مگر ہماری خود فراموشی کو
ہمدروں نے غرور سمجھا
ہمیں خود سے دور سمجھا
گٹھن یہ غضب کی ہے
کچھ کہنا مشکل ہے
kanwal naveed
Copy
سرگوشیاں
میری ذات کی محرومیاں
چھلک جاتی ہیں ذات سے
پتہ چل جاتا ہے سب اب
مختصر سی بات سے
چھپا چھپا کر رکھا تھا جو
سب کے سامنے عیاں ہوا
ہمیں بھی یاد نہیں تھا جو
کب تھاوہ اور کہاں ہوا
سرگوشیاں میری ذات کو
مکمل جڑوں تک ہیں کاٹتی
میرے وجود کو ہیں توڑتی
حصوں میں ہیں بانٹی
بہت بدنما نشان تھے
میری روح کے لباس پر
بہت زور کی تھی چوٹ
میرے وجود پر میرے احساس پر
ہم ٹوٹ کے بکھر رہے تھے
ذات کے اندر ہی ذات میں
ناقابل بیان داستان تھی
بات چھپی تھی بات میں
مگر پھر بھی جاری ہے سفر
کر رہی ہوں جس کو سر
یہ سرگوشیاں مگر عذاب ہیں
سفر میں مثل گرداب ہیں
kanwal naveed
Copy
تم ایک خواب ہی تو ہو
تم ایک خواب ہی تو ہو
ٹھہرے ہوئے پانی میں
عجب سے کنکر دیکھتی ہوں
اپنی گرم سانسوں سے
ہتھیلی کو سیکتی ہوں
یہ پت جھڑ کی ہوائیں ہیں
جن سنگ پتے آئے ہیں
میرے بدن کو چھو کر
کہتی ہیں یہ ہوائیں
جانے دو اب آئیں
موسم بہار کو آنے دو
خود کو کچھ سجاو نا!
میرے جسم کی گرمی
زندگی کی حرارت ہے
جس میں جواب عبارت ہے
کہ اب بھی موسم بہار ہے
مگر میں جاننا ہی نہیں چاہتی
تم ایک خواب ہی تو ہو
kanwal naveed
Copy
ہمسفر
ہمسفر ہیں ہم تم
بہت دوریاں بہت قریب ہیں
کبھی رنجشیں کبھی محبتیں
کبھی رقیب ہیں کبھی حبیب ہیں
ڈھونڈتی ہیں نگائیں تجھے
جو کبھی نہ میرے پاس ہو
جو روٹھ کر جائے کبھی
دل کیا روح بھی اداس ہو
عجیب سا یہ احساس ہے
جو نہ بتا سکوں بے قیاس ہے
کبھی آمنے سامنے کوسنا
کبھی تنہائی میں سوچنا
مجھے کبھی بہت دور لگے
کبھی لگے میرا ہے تو
سب سے زیادہ مجھے ہی چاہے
کبھی ہو یہ جستجو
پھر لگے سب کچھ خواب ہے
سب دل پر مسلط عذاب ہے
جس کی تجھ کو خبر نہیں
جس پر مجھے صبر نہیں
ممکن ہے ہر دل میں ہو
جو بھی کسی کا ہمسفر ہو
kanwal naveed
Copy
دوسروں کو سہارا دو
جب کوئی اپنا نہ ملے
جینے کو سپنہ نہ ملے
منزل کی نہ پہچان ہو
زندگی نہ آسان ہو
پاوں جب رکنے لگیں
تو چلنے کا اشارہ دو
دوسروں کو سہارا دو
وقت کاٹنا آسان ہو گا
تمہارے اندر اک جہاں ہو گا
زخموں پر جو مرہم رکھو تو
جینا تمہارا بھی آسان ہو گا
جیون کو اپنے کنارہ دو
دوسروں کو سہارا دو
منزل کی تلاش میں
گمراہ شکست فاش میں
لوگ چل رہے اپنی اپنی راہ
صرف اپنے غم سے ہی آگاہ
تم رات کو ستارہ دو
دوسروں کو سہارا دو
چنے ہوئے کچھ لوگ ہیں
ہر طرف تو روگ ہیں
دوسروں کو ہنساتے ہیں
غم اپنے چھپاتے ہیں
کوئی رشتہ تم پیارا دو
دوسروں کو سہارا دو
kanwal naveed
Copy
خواب
میری تنہائی کی رات ہے
خود سے جاری یہ بات ہے
جانتی ہوں تو اداس ہے
مجھے اس کا احساس ہے
نہیں ہوں میں چاہت تیری
غارت کروں راحت تیری
تیری شکایات کے انبار ہیں
سننے کو ہم تیار ہیں
اگرچہ روح کو تڑپائیں گی
تیری باتیں ہمیں ستائیں گی
مگر پھر بھی ہے آرزو
کہ ہو تجھ سےگفتگو
بے بسی کی انتہا ہے
جب جنون کو نہ راہ ملے
کسی کا ساتھ چاہوں تو
تنہائی ملے سزاملے
وفا کروں دغاملے
بھلائی کی نہ جزا ملے
میرے جیسے مریض کو
نہ دوا ملے نہ دعا ملے
یہ کیسے لفظ ہیں
میرے وجود کو ہیں چاٹ رہے
میری حسرتوں کو توڑ کر
میرے وجود کو ہیں بانٹ رہے
ٹکڑے ٹکڑے ذات کو
سمیٹنے کے در پر ہوں
خود سے ہوں بے خبر
کون ہوں کس کے گھر میں ہوں
مگر پھر بھی ہے جستجو
کہ ہو تجھ سے گفتگو
آج پھر سے ممکن ہے
ہوں ہم تم دو بدو
تیر جیسے الفاظ تیرے
اتریں میری زات میں
پھر سے مخل ہو جائے تو
میری تنہائی کی رات میں
kanwal naveed
Copy
انسان
یہ کیا ہے
کیسے بیان ہو گا
کون ہے وہ کہاں ہو گا
جس کو بتا پائیں
حالات دل سنا پائیں
اس بوجھ کو ہٹا پائیں
جو ہمارے من پہ ہے
کچھ باتیں دل کے گوشوں سے
خون چوستی جاتی ہیں
جب آئینہ کے سامنے ہوں
نگائیں پوچھتی جاتی ہیں
کون ہے وہ کہاں ہو گا
جو غموں سے عاری ہو
جسے نہ یہ بیماری ہو
چاہنے اور چاہے جانے کی
کسی کا مکمل کہلانے کی
کون ہے وہ کہاں ہوگا
جو ہمیں آزاد کر دے
جیون کو آباد کر دے
مگر شرائط سے عاری ہو
پھر سلسلہ جاری ہو
قید سے رہائی کا
خود سے آگائی کا
مگر یہ ممکن نہیں
کیونکہ انسانوں کی نگری میں
ہر کوئی بیمار ہے
خواہشات سے لاچارہے
تلاش میں ہے مبتلا
عجب سی ہے یہ سزا
عجب سا ہے یہ سلسلہ
یہ کیا ہے
کیسے بیان ہو گا
kanwal naveed
Copy
مرد
ایسے ہی پیغمری میسر نہیں اُسے
دنیا میں منفرد ہے مرد اپنی ذات میں
یکساں نہیں ہیں سبھی پھول گلستان کے
منفرد ہے ہر ایک ہی اپنی ذات میں
kanwal naveec
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets