Add Poetry

اب دیکھیے کہانی کہاں جا کے ختم ہو

Poet: عمیر قریشی By: عمیر قریشی, اسلام آباد

ڈرتے ہیں صرف اس لیے عرضِ بیاں سے ہم
کرجائیں کوئی ظلم نہ اپنی زباں سے ہم

کارِ جہاں کے واسطے فرصت ہی کب ملی
نکلے کبھی نہ قیمتِ غم کے گماں سے ہم

جو ساتھ لے گئے تھے یقیں وہ بھی رہ گیا
لوٹے ہیں خالی ہاتھ ترے آستاں سے ہم

دنیا سے دل لگانے کا کچھ فائدہ نہیں
جانا وہیں ہے لوٹ کے، آئے جہاں سے ہم

جب ولولوں کی قید سے آزاد ہو گئے
گزرے نہ اس گلی سے جو گزرے وہاں سے ہم

سرمستیِ حیات ہے موسم سے بے نیاز
پیتے ہیں جوئے یاد کے آبِ رواں سے ہم

اب دیکھیے کہانی کہاں جا کے ختم ہو
مر کر نکل تو آئے ہیں اس داستاں سے ہم

اب کوئی ہجر و وصل سے باقی نہیں غَرَض
اکتا گئے ہیں قصّہء عشقِ بتاں سے ہم

چھایا ہے کچھ عجیب یہاں ماتمی سکوت
اب خود بھی خوف کھاتے ہیں اپنے مکاں سے ہم

بیجا ہے بے رخی کا گلہ ہم سے جانِ جاں
بیزار خود بھی رہتے ہیں اب اپنی جاں سے ہم

Rate it:
Views: 337
12 Apr, 2015
Related Tags on Love / Romantic Poetry
Load More Tags
More Love / Romantic Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets