تیرہ شبی کا راہ میں بالکل بھی ڈر نہ ہو
"دو چار سال تک تو الہی سحر نہ ہو"
بکھرے ہوئے ہوں جال خموشی کے ہر طرف
سوکھے ہوئے ہوں پیڑ کسی پر ثمر نہ ہو
ملنے کے بعد اس سے بچھڑنا پڑے مجھے
ایسا کوئی بھی رابطہ بارِ دگر نہ ہو
شاداب بستیوں میں فروکش ہو ہر کوئی
سردی سے جسم کانپے تمازت کا ڈر نہ ہو
فٹ پاتھ پر اسی کی گزرتے ہیں روز و شب
جس کا بھرے جہاں میں کہیں پر بھی گھر نہ ہو
پتھر مزاج شخص کو اپنا بنا لیا
وشمہ کسی بھی بات کا اس پر اثر نہ ہو