زندہ ہیں مگر زیست کا گھر ڈھونڈ رہے ہیں
تاروں میں جو رہتا ہے قمر ڈھونڈ رہے ہیں
لے آئی ترے در پہ ہمیں بھوک ہماری
اب دیکھے جو ہم کو بھی نظر ڈھونڈ رہے ہیں
کچھ لوگ یہاں پیار کے جنگل سے گزر کر
خود شہرِ خرافات میں شر ڈھونڈ رہے ہیں
ہو جائے مکمل یہ کسی طور غزل بھی
شعروں کی کتابوں میں گہر ڈھونڈ رہے ہیں
جس سمت سے آئے تھے اُسی سمت کو چل کر
اس زیست کے کھیتوں میں ثمر ڈھونڈ رہے ہیں
اس بزم میں ہم آئے تھے کچھ سیکھنے لیکن
وہ شعروں میں بس زِیر و زَبر ڈھونڈ رہے ہیں
ہم اپنے ہی ادوار میں گم رہتے ہیں وشمہ
اک پیار مگر شام و سحر ڈھونڈ رہے ہیں