میں تو زندہ ہوں تراساتھ نبھاؤ تو سہی
تری ہجرت میں تجھے روز پکارؤ تو سہی
کتنی مشکل سے بہایا ہے یہاں خونِ جگر
اپنی آنکھوں میں سمندر کو بہاؤ تو سہی
اک تری یاد کا رہتا ہے گماں رات تلک
تجھے یادوں کی حویلی میں چھپا ؤ تو سہی
مجھ کو ڈر ہے کہ کہیں ٹوٹ نہ جائے گر کر
اپنے ہاتھوں سے اگر مجھکو لگاؤ تو سہی
ہم کو تقدیر سے شکوہ ہے ، شکایت نہ گلہ
ہم توزندہ ہیں تجھے اپنا بناؤ تو سہی
عشق کی راہ میں جلنا ہی ضروری سمجھا
سب کو اٹھتے ہوئے طوفاں سے بچاؤ تو سہی
ایک مہتاب کو ماتھے پہ سجا کر وشمہ
ایک سورج تو محبت کا چڑھا ؤ تو سہی