پندار چُور چُور ہُوا ، کُھل کے روئیے
مُدت کے بعد آج ،ذرا سُکھ سے سوئیے
جو کچھ کہا ہے آپ نے وہ سب بجا حضور
دشنام کی اَنی میں ،ہمیں کو پروئیے
مقتل ابھی سجا نہیں ،کسی آوازِ مَست سے
زنجیر ہی کا شور ،کہ چپ بھی نہ ہوئیے
گلشن میں آج بادِ صبا، کہہ گئی ہے کیا
بلبل سے بڑھ کے گل نے کہا، جاناں نہ روئیے
دن ڈھل گیا جو زیست کا، اور شام آ گئی
وہ آنکھ رو پڑی ہے کہ، لِلّہ نہ سوئیے
جب مہرباں نفس نہ ملے، کائنات میں
شانے پہ کس کے سر رکھے موتی پروئیے