کیا ہؤا جو میں ہوں ۰۰۰۰۰ درون ِ قفس
اس کا ایک اِک تار ہے میرا ہم نفس
تنہائی میں بھی تیرے قرب کا احساس
میری انگلیوں پہ چھوڑ گیا ہے اپنا لمس
آتش ِ ہجر میں جل جل کے جی اٹھتا ہے
تیری طلب میں دل ہو گیا مانند ِ قُقنس
میری حالت ِ دل ہی کی ایک جھلک ہے
وہ داغ ِ قمر ہو یا ہو کوئی شرارۂ شمس
تو بچھڑ گیا ہے تو خار بن کے چُبھتا ہے
ہوتے ہی گلاب بھی میرے لبوں سے مس
دل کو لگا رہتا ہے ہر دم کوچ کا دھڑکا
دھڑکنوں میں گونج رہی ہے صدائے جرس
یاد کسی اپنے کی دل رعنا کا تڑپائے جب بھی
دید کے پیاسے نیناں جاتے ہیں برس برس