خواب میں یا شکستِ خواب میں گم
ہم ہی دریا ہمیں سراب میں گم
کوئی منظر کہیں، نہ نظارہ
سب ہیں اپنی نظر کی آب میں گم
کتنے دل ڈوبے آفتاب کے ساتھ
کتنی آنکھیں ہیں مہتاب میں گم
ہے عجب لو کسی کے چہرے میں
دھوپ کی اک کرن گلاب میں گم
آنکھ تو کھول ہم بھی تو دیکھیں
کتنے عالم ہیں اس حباب میں گم
سامنے اپنے آئینہ رکھ کر
حسن ہے حسنِ انتخاب میں گم
ہم نے پوچھا تھا روشنی کیا ہے
اور اندھیرے ہوئے جواب میں گم
ہم نے آواز دی بہت دل کو
جانے وہ کس سے تھا خطاب میں گم