✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
مرید باقر انصاری
Search
Add Poetry
Poetries by مرید باقر انصاری
خول چڑھائے ہُوئے آ جاتے ہیں
خول چہروں پہ چڑھائے ہوئے آ جاتے ہیں
لوگ کرتُوت چُھپائے ہوئے آ جاتے ہیں
گھر سے نکلے کوئی عورت تو ہوس کے پیکر
ہر طرف گھات لگائے ہوئے آ جاتے ہیں
جب بھی یاروں کی عنایات کا چرچا ہو تو ہم
زخم سینوں پہ سجائے ہوئے آ جاتے ہیں
کام کرنے پہ انہیں موت نظر آتی ہے کیا ?
وہ جو کشکول اٹھائے ہوئے آ جاتے ہیں
میری محفل میں مرے نعرے لگاتے ہوئے لوگ
نفرتیں دل میں چُھپائے ہوئے آ جاتے ہیں
میں زمانے کا ستایا ہوں مرے در پہ یونہیں
سب زمانے کے ستائے ہوئے آ جاتے ہیں
روز باقرؔ میرے مرقد پہ مرے ہی قاتل
شکل معصُوم بنائے ہوئے آ جاتے ہیں
مرید باقر انصاری
Copy
یا کسی روڈ کے فُٹ پاتھ پہ مارے جائیں
یا کسی روڈ کے فُٹ پاتھ پہ مارے جائیں
یا کسی موت کے کُنویں میں اُتارے جائیں
موت ہر وقت بھٹکتی ہے ہمارے سر پر
زندگی ہم تیری دہلیز پہ ہارے جائیں
ہم ہیں حق گو ہمیں خطرات لحق ہوتے ہیں
ہم جہاں جائیں دُعاؤں کے سہارے جائیں
ہم سدا موت ہتھیلی پہ لِیے پِھرتے ہیں
کیا خبر زیست کے کِس موڑ پہ مارے جائیں
جب بھی مقتل کو لہُو دینے کی باری آئے
سرِ فہرست سدا نام ہمارے جائیں
پِھر سے مکتب میں دھماکہ کوئی ہو سکتا ہے
بچے کچھ گھر میں رہیں پڑھنے نہ سارے جائیں
ہم دھماکوں سے اگر بچ بھی گئے تو باقرؔ
عین ممکن ہے سِناں پر سے گُزارے جائیں
مرید باقر انصاری
Copy
دل کے برباد جزیروں کی خبر لے کوئی
دل کے برباد جزیروں کی خبر لے کوئی
کاش بےحال فقیروں کی خبر لے کوئی
کیوں جلا اِن کے چراغوں میں غریبوں کا لہُو
میری بستی کے امیروں کی خبر لے کوئی
خوں گری عام ہے اور حرفِ ملامت بھی نہیں
ہیں کہاں مُردہ ضمیروں کی خبر لے کوئی
کیوں ترقی نہیں کر پایا ابھی تک کوئی شہر
کاش نااہل وزیروں کی خبر لے کوئی
پھر کسی سیپ کے آنگن میں چُھپے بیٹھے ہیں
جا کے ساحل پہ وہ ہیروں کی خبر لے کوئی
جانے کس حال میں ہیں زِندہ بھی ہیں یا مر گئے
ہجر کے مارے اسیروں کی خبر لے کوئی
کِس نے پیغامِ محبت میں ملاوٹ کی ہے
عشق کے سارے سفیروں کی خبر لے کوئی
میری قسمت میں کہیں وصل لکھا ہے کہ نہیں
میرے ہاتھوں کی لکیروں کی خبر لے کوئی
آج کیوں مجھ کو ستانے نہیں آئے باقرؔ
بچے کِس کے تھے شریروں کی خبر لے کوئی
مرید باقر انصاری
Copy
کُچھ تو چہرے پہ خاک رہ جائے
کُچھ تو چہرے پہ خاک رہ جائے
اور قبا یُوں ہی چاک رہ جائے
جِس سے بچپن کا پیار بِچھڑا ہو
کیسے وہ ٹھیک ٹھاک رہ جائے
ہم نے یُوں بھی محبتیں کی ہیں
جِسم کُچھ دِن تو پاک رہ جائے
جانے کیوں لوٹ کر نہیں آتے
آنکھ میں جن کی تاک رہ جائے
چھوڑ جا یادِ رفتگاں مُجھ کو
نِت مرا اِنہماک ... رہ جائے
ڈھل نہ جائے کہیں زمانے میں
جب وہ بِچھڑے تو باک رہ جائے
اُن کا بوسہ نصیب ہو بــــــــاقرؔ
روز خواہش ہلاک رہ جائے
مرید باقر انصاری
Copy
یہ جب سے میں نے لوگوں سے سُنا ہے
یہ جب سے میں نے لوگوں سے سُنا ہے
کہ وہ موجُود ہوتا ہر جگہ ہے
میں قاصر ہو گیا ہوں سوچنے سے
کہ مسجد میں یا مندر میں خُدا ہے
مگر ایسا بھی کہتے ہیں کُچھ اِنساں
ازل سے وہ فقط دِل میں چُھپا ہے
وگرنہ رات دِن اِنساں نہ جُھکتے
وہ کُچھ دِن پتّھروں میں بھی گیا ہے
وہ یکتا ہے کسی کا بھی نہیں ہے
اگر ہے تو سبھی کا ہی خُدا ہے
مجھے مجبُور جو وہ کر رہا ہے
کہ سوچُوں اُس کے بارے کہ وہ کیا ہے
مجھے لگتا ہے بـــــــاقرؔ میرے دِل میں
اُتر آہستہ آہستہ ...... رہا ہے
مرید باقر انصاری
Copy
فقیر , شہر میں ایسے کبھی صدا دیں گے
فقیر , شہر میں ایسے کبھی صدا دیں گے
تمام شہر کے دِیوار و دَر ہِلا دیں گے
دِیئے غریب کی کُٹیا کے چھیننے والو
دِیئے تُمہارے سبھی گھر کو ہی جلا دیں گے
ہماری کُٹیا جو تَرسی کبھی چراغوں کو
نہ دیں گے انس تو جُگنُو ہمیں ضیا دیں گے
کبھی تو عرش پہ بیٹھا بھی بول اُٹھّے گا
خُدا یہ فرش کے کب تک ہمیں سزا دیں گے
ستا نہ پاۓ گا وہ عُمر بھر کسی کو بھی
سِتم ظریف کو بسمل یُوں بدعا دیں گے
صدائیں حق کی سدا مقتلوں میں گُونجیں گی
کٹا کے سر بھی سدا حق کی ہم صدا دیں گے
کہ مِٹ تو جائیں گے دُنیا سے ہم بھی اے باقرؔ
مگر یہ ظُلم کا نام و نشاں مِٹا دیں گے
مرید باقر انصاری
Copy
نہ مجھ سے میری چُھڑا غریبی
نہ مجھ سے میری چُھڑا غریبی
ہے میری حاجت روا غریبی
کہ جب سے میں نے جنم لیا ہے
سبق ہے میں نے پڑھا غریبی
ہے اپنے قدموں پہ کیسے چلنا
گئی ہے مجھ کو سکھا غریبی
میں ساتھ اس کا نبھا رہا ہوں
ہے مجھ کو دیتی دعا غریبی
یہ ہے جو بچپن سے میری ساتھی
تو کیسے دوں میں بُھلا غریبی
وہ بندہ پیارا ہے اپنے رب کو
کہ جس کو دے دے خدا غریبی
زمانہ سارا ہی چھوڑ دے گا
مگر کرے گی وفا غریبی
اے لوگو اس سے نبھا کے دیکھو
کبھی نہ دے گی دغا غریبی
کہ جس پہ ناراض میرا رب ہو
ہے اس کو لگتی سزا غریبی
سمجھتا ہوں میں غریب کے دکھ
رہی ہے مجھ پہ سدا غریبی
مُـــــریدؔ مالک کی یہ عطا ہے
تُو اپنے دل سے لگا غریبی
مرید باقر انصاری
Copy
نہیں ہے راج کی خواہش سکندروں کی طرح
نہیں ہے راج کی خواہش سکندروں کی طرح
ہمیں نواز دے مالک قلندروں کی طرح
جو آج سہمے ہوئے چپ سے رہتے ہیں گمنام
وہ پھیل جائیں گے اک دن سمندروں کی طرح
اگر وہ چاہیں تو دنیا پلٹ کے رکھ دیں گے
نظر جو آئیں بظاہر گدا گروں کی طرح
فقیر لوگ نہیں تاج و تخت کے مہتاج
زمانہ جن کو جُھکے ہے سکندروں کی طرح
کہ سجدہ ریز ہو جن میں ہر ایک نوعِ بشر
ہوں مسجدیں تو کلیساؤں مندروں کی طرح
نہ جانے کس کا وہ بھگوان جا کے بن بیٹھا
جو ہم نے انس تراشا تھا پتھروں کی طرح
تو کیا ہوا ہے کہ تنہا ہیں آج شہر میں ہم
کبھی ہمارے بھی اپنے تھے لشکروں کی طرح
کبھی سرابوں میں خیمے کبھی پہاڑوں پہ گھر
تمام عمر رہا میں مسافروں کی طرح
ہے میرا حال ترے بعد دیکھنے والا
وہ آندھیوں کے ستاۓ بُجھے گھروں کی طرح
مرے نشان یُوں تاریخ میں ملیں گے کبھی
کہ ایک شخص تھا اُجڑا تھا کھنڈروں کی طرح
اکڑ کے چلنے کی عادت تُو بُھول جا باقرؔ
فقیری ذہن بنا لے سخنوروں کی طرح
مرید باقر انصاری
Copy
اِس کے اظہار کو اظہار نہ سمجھا جاۓ
اِس کے اظہار کو اظہار نہ سمجھا جاۓ
دل کسی کا بھی طلبگار نہ سمجھا جاۓ
دل تو پاگل ہے نئے انس پہ مرتا ہے روز
کوئی اس کا کبھی دلدار نہ سمجھا جاۓ
پتلہ مٹی کا وفا کر ہی نہیں سکتا کبھی
کسی انساں کو وفادار نہ سمجھا جاۓ
اس کے ہر کام میں حکمت جو چھپی ہوتی ہے
یوں کسی چیز کو بےکار نہ سمجھا جاۓ
اس کی مرضی جو نہ ہو پتہ نہیں ہل سکتا
خود کو بےکار کا مختار نہ سمجھا جاۓ
جس نے انسان سے نفرت کا کبھی درس دیا
ایسے دیں دار کو دیں دار نہ سمجھا جاۓ
شرک کرتا ہے کسی کا وہ دُکھاتا نہیں دل
ایسے کافر کو گنہگار نہ سمجھا جاۓ
یہ اگر چاہیں تو دنیا ہی پلٹ کر رکھ دیں
ان فقیروں کو اداکار نہ سمجھا جاۓ
جو دکھاوے کیلۓ ماتمِ شبیر کرے
ایسے مومن کو عزدار نہ سمجھا جاۓ
جو بھی لکھتا ہوں میں مالک کی عطا ہے باقرؔ
میرے فن کو میرا شہکار نہ سمجھا جاۓ
مرید باقر انصاری
Copy
دماغ و ذہن پہ چھائی یہ ظلمتیں نکلیں
دماغ و ذہن پہ چھائی یہ ظلمتیں نکلیں
کسی طرح تو مرے دل سے وحشتیں نکلیں
یوں مجھ کو وقت کے حاکم نے قتل کر ڈالا
میں چاہتا تھا کہ گاؤں سے غربتیں نکلیں
خطیبِ شہر سے جاں چھوٹے تب ہی ممکن ہے
دلوں میں نقش یہ بغض و عداوتیں نکلیں
معاشرے میں برائی کو روکنا ہے اگر
جڑیں برائی کی پہلے تو صحبتیں نکلیں
ہر ایک شہر میں ہی المیہ دکھائی دے
منافقت کو نکالیں تو غیبتیں نکلیں
وہ ایک بار جسے ہجر گھیر لیتا ہے
اسی کے حصے میں ساری مصیبتیں نکلیں
مری نمازوں میں باقرؔ خلل یہ ڈالتی ہیں
یہ میرے ذہن سے مٹی کی مورتیں نکلیں
مرید باقر انصاری
Copy
سنگدل شہر سے جب کوئی سوالی آئے
سنگدل شہر سے جب کوئی سوالی آئے
بھیک میں لے کے وہ ماں بہن کی گالی آئے
روز اجڑا ہوا گلشن یہ دعا کرتا ہے
میرے آنگن میں کبھی کوئی تو مالی آئے
مہرباں کوئی اسیروں ملے ایسا بھی
قیدِ زِنداں سے جو چپ چاپ نکالی آئے
میری میت پہ سبھی غیر تھے رونے والے
میرے اپنے تو بجاتے ہوۓ تالی آئے
آسماں چھونے لگے آج پھر ان کے جذبات
چوم دیوانے ترے در کی جو جالی آئے
قوم پھر آج ہے سوئی ہوئی غفلت کی نیند
کاش پھر میر یا اقبال یا حالی آئے
مجھ گنہگار پہ مالک کی عطا ہے باقرؔ
میرے حصے میں سدا شعر مثالی آئے
مرید باقر انصاری
Copy
میں سوچتا ہوں کہیں ٹُوٹ ہی نہ جاؤں میں
میں سوچتا ہوں کہیں ٹُوٹ ہی نہ جاؤں میں
اگر یہ ہجر میں کچھ اور پل بِتاؤں میں
میں سوچتا ہوں کہ دنیا تمہیں بدل دے گی
چلے جو بس تمہیں دنیا سے چھین لاؤں میں
میں سوچتا ہوں کہ جگنُو کو نوچ ہی ڈالوں
تمام تتلیاں پر کاٹ کر اُڑاؤں میں
میں سوچتا ہوں کہ اُجڑے شجر پہ ظلم کروں
برہنہ شاخیں شجر کی سبھی ہِلاؤں میں
میں سوچتا ہوں کسی کا بھی اب ملن مت ہو
یوں بیٹھے شاخ پہ دو پنچھی بھی اُڑاؤں میں
میں سوچتا ہوں مری طرح سب اُجڑ جائیں
کہ جب وہ روئیں تو جی بھر کے مسکراؤں میں
میں سوچتا ہوں کہ گُل ہوں سکندری کے چراغ
سکندروں کے سبھی تاج توڑ آؤں میں
میں سوچتا ہوں زمانہ کبھی بدل جاۓ
جو ہیں غریب انہیں تخت پر بھی پاؤں میں
میں سوچتا ہوں کبھی ڈھونڈ لاؤں آبِ حیات
ہیں میرے جتنے بھی دُشمن اُنہیں پِلاؤں میں
میں سوچتا ہوں کبھی کام ایسا کر جاؤں
عدُو کی آنکھوں میں بھی آنسُو چھوڑ جاؤں میں
میں سوچتا ہوں کہ پاگل کہیں نہ ہو جاؤں
تمہارے ہجر کی شمع کبھی بجھاؤں میں
میں سوچتا ہوں کبھی خُود کو قتل کر ڈالوں
اور اپنے خُون کے تالاب میں نہاؤں میں
میں سوچتا ہوں کہ باقرؔ مَروں تو کچھ ایسے
کہ دُشمنوں کو بھی شِدّت سے یاد آؤں میں
مرید باقر انصاری
Copy
جو اپنی گلی سے بھی گزرنے نہیں دیتا
جو اپنی گلی سے بھی گزرنے نہیں دیتا
وہ دل میں کسی کو بھی اُترنے نہیں دیتا
کیوں یادوں میں اُلجھاۓ وہ رکھتا ہے ہمیشہ
مل جانے پہ دیدار جو کرنے نہیں دیتا
مقروض محض ایک نوالے کا جو کر لے
مفلس کو وہ زردار سنورنے نہیں دیتا
دن رات جگاتا ہے وہ خدام کی صورت
مفلس کو کبھی چین سے مرنے نہیں دیتا
سمجھو کے لہُو اُس کی رَگوں میں ہے یزیدی
پانی وہ جو دریا سے بھی بھرنے نہیں دیتا
مذہب ہے سدا میرا جو انساں سے بھلائی
خلوت میں یہ جذبہ مجھے ڈرنے نہیں دیتا
باقرؔ وہ جو خود جھوٹ کا پیکر ہے جہاں میں
محفل میں کسی کو بھی مکرنے نہیں دیتا
مرید باقر انصاری
Copy
غزلوں میں غم و درد کا رس گھولنے والا
غزلوں میں غم و درد کا رس گھولنے والا
شاعر ہو تو پریوں کے بھی پر تولنے والا
وہ گھر سے جو نکلے تو معطّر ہو فضا بھی
خلوت میں وہ خُوشبو کی رسن کھولنے والا
دنیا میں ہُنر چہرہ شناسی کا بہت ہے
ہو کوئی تو دل میں چُھپے غم پھولنے والا
آواز دبا دیتا ہے مُفلس کی ہمیشہ
میزان عدالت کا یہاں تولنے والا
مے وہ ہے جو بھٹکے ہُوؤں کو رستہ دکھاۓ
ہوتا نہیں میخار کبھی ڈولنے والا
چُپ کیوں ہے مجھے تخت پہ بیٹھا ہُوا پا کر
خستہ میری حالت پہ بہت بولنے والا
باقرؔ وہ خریدے گا کبھی سارے جہاں کو
صحرا میں چُھپے ہیرے گُہر رولنے والا
مُـــــــــــــرید بــــــــــــاقرؔ انصـــــــــــاری
.
.
مرید باقر انصاری
Copy
عمر بھر وہ شخص جو مجھ سے جفا کرتا رہا
عمر بھر وہ شخص جو مجھ سے جفا کرتا رہا
سوچتا ہوں کس سے آخر وہ وفا کرتا رہا
کتنا پاگل تھا میں دعوت دے رہا تھا موت کو
رُوح اپنی جسم سے جب میں رِہا کرتا رہا
رات میں نے دوستی کی اک عجب دیکھی مثال
فاختہ پیچھے چلی جگنو ضیا کرتا رہا
میں تو اپنی جھونپڑی میں سو گیا تھا چین سے
تیز آندھی میں دفاع اپنا دِیا کرتا کرتا رہا
پھول بیچارے وہی کُملا گۓ کچھ دیر بعد
ترس کھا کر جن کو کانٹوں سے جُدا کرتا رہا
جب بھی دیتا چوٹ پانی بھی پلاتا تھا مجھے
ہاۓ ہاۓ میرا دشمن کیا بھلا کرتا رہا
بےوجہ کل تک میں اپنے دُشمنوں سے تھا خفا
کام تو اچھے برے سارے خُدا کرتا رہا
آج میری ہی دعاؤں سے ہوا وہ کامیاب
عمر بھر میرے لیۓ جو بدعا کرتا رہا
وہ مری دستار میں کانٹے چبھو کر چل دیا
جس کے حصے میں, مَیں ہیرے بہا کرتا رہا
میری قسمت میں کوئی بھی باوفا ساتھی نہیں
جو ملا مجھ کو وہی مجھ سے دغا کرتا رہا
وہ بھی میرے دُشمنوں کے ساتھ آخر ہو لیا
زندگی بھر جس کی میں حاجت روا کرتا رہا
جِس کے عیبوں کو میں کُھلنے سے بچاتا رہ گیا
وہ بھرے بازار میں میرا گِلا کرتا رہا
میرے ہی دل میں چھپا بیٹھا تھا وہ چپ چاپ سا
میں عبادت گاہوں میں جس کا پتا کرتا رہا
عمر بھر مدمقابل یوں رہے میں اور خُدا
میں خطا کرتا رہا ہوں وہ عطا کرتا رہا
تیز طوفاں میں پھنسی کشتی بچانے کےلیے
کوششیں ناکام کتنی ناخدا کرتا رہا
ٹوٹ کر رویا ہے کیوں وہ آج میری قبر پر
عمر بھر جو میرے مرنے کی دعا کرتا رہا
میں یُونہی ثابت قدم رہتا تھا ہر میدان میں
دُور مجھ سے مُشکلیں مُشکل کُشا کرتا رہا
میرے دُشمن بھی یہی کہتے پھریں گے میرے بعد
کیا غضب کی شاعری اک دل جلا کرتا ہے
میرے فن نے مجھ کو زندہ رکھا میرے بعد بھی
تھا وہ مخلص نام جو اونچا مرا کرتا رہا
سنگدل وہ مجھ سے ملنے آج تک آیا نہیں
جس کی خاطر میں نمازیں بھی قضا کرتا رہا
اپنی اپنی ضد پہ باقر دونوں ہی قائم رہے
میں وفا کرتا رہا ہوں وہ جفا کرتا رہا
مرید باقر انصاری
Copy
اپنے پہلُو میں وہ غیروں کو بِٹھاتا کیوں ہے
اپنے پہلُو میں وہ غیروں کو بِٹھاتا کیوں ہے
چاہتا جب وہ نہیں مجھ کو جلاتا کیوں ہے
سمجھ آتی نہیں اُس کی انہی باتوں کی مجھے
خُود ہنساتا ہے تو پھر خُود ہی رُلاتا کیوں ہے
کیسے دُوں گا میں زمانے کے سوالوں کے جواب
لوگ پُوچھیں گے کہ وہ تجھ کو ستاتا کیوں ہے
جب بھی اُس شخص کے میں سامنے آ جاتا ہوں
تو وہ چہرے سے نقاب اپنا ہٹاتا کیوں ہے
رات بھر سوچتا رہتا ہوں اِسی بات کو میں
مجھے اُلفت کے ہی قصے وہ سُناتا کیوں ہے
اگر اُس نے میرا نام اِس پہ نہیں لکھا ہے
مجھ سے پھر اپنی ہتھیلی کو چھپاتا کیوں ہے
اُس سے باقرؔ کبھی ناراض جو ہو جاؤں میں
مجھے خوابوں میں وہ رو رو کے مناتا کیوں ہے
مرید باقر انصاری
Copy
زمیں پہ آج یہ حُوروں کا کیوں ہجوم ہُوا
زمیں پہ آج یہ حُوروں کا کیوں ہجوم ہُوا
اور ان کے ساتھ فرشتوں کا کیوں ہجوم ہُوا
کسی بزرگ ولی کا جنازہ ہے شاید
وگرنہ صحن میں پریوں کا کیوں ہجوم ہُوا
ہے رسمِ زُلف کشائی یا غُسل میت کا
میں سوچتا ہوں کہ اربوں کا کیوں ہجوم ہُوا
یہ قتل گاہ نہیں ہے یہ ملک ہے میرا
خُدارا روز یہ لاشوں کا کیوں ہجوم ہُوا
اِسی کا رِزق جو کھا کر اِسی کو کاٹتے ہیں
یہ میرے ملک میں کُتّوں کا کیوں ہجوم ہُوا
یُوں اعتبار نہ اُٹھ جاۓ دین سے ہی کہیں
یہ دن بدن نۓ فرقوں کا کیوں ہجوم ہُوا
تِرا اِشارا ہی کافی تھا میرے مرنے کو
یہ قتل گاہ یہ نیزوں کا کیوں ہجوم ہُوا
کوئی بھی غیر تماشائیوں میں تھا ہی نہیں
جو میں تھا دار پہ اپنوں کا کیوں ہجوم ہُوا
حیات تھا تو کوئی پُوچھتا نہ تھا مجھ کو
یہ میری لاش پہ لوگوں کا کیوں ہجوم ہُوا
کسی درندے کی پھر سے نظر نہ پڑ جاۓ
کنارے جھیل کے بچوں کا کیوں ہجوم ہُوا
بڑا ہی میں تو گنہگار شخص تھا بــــــــاقرؔ
مری لحد پہ پرندوں کا کیوں ہجوم ہُوا
مرید باقر انصاری
Copy
شام ہوتے ہی گۓ چھوڑ سحر کے ساتھی
شام ہوتے ہی گۓ چھوڑ سحر کے ساتھی
اب بنائیں گے کسی اور نگر کے ساتھی
وہ جو اک عمر سے ویران کھنڈر میں ہے کھڑا
ہیں کہاں کھو گۓ برباد شجر کے ساتھی
پاس جب تک رہے دولت تو نبھاتے ہیں ساتھ
کام آتے نہیں مشکل میں یہ گھر کے ساتھی
کل مرے قتل میں شامل تھے جو دشمن کے ساتھ
وہ بھی نکلے مرے منظورِ نظر کے ساتھی
ہے تمہیں ڈھونڈ رہی دؤرِ منافق کی نظر
چھپ ہی جاؤ اے سناں پہ سجے سر کے ساتھی
آج وہ دوستوں کے ساتھ لگا یوں پیارا
جیسے کہ رات ستارے تھے قمر کے ساتھی
میں نے صدیوں کی مسافت سے یہ سیکھا باقرؔ
دے نہیں پاتے سدا ساتھ سفر کے ساتھی
مرید باقر انصاری
Copy
کیوں نہ اُگلیں میری نظمیں میرے اشعار لہُو
کیوں نہ اُگلیں میری نظمیں میرے اشعار لہُو
روز ہوتے ہیں یہاں جو بھرے بازار لہُو
سوچتا ہوں کہ بھلا جُرم ہے کیا بچوں کا
جانے کیوں کرتے ہیں بچوں کا وہ ہر بار لہُو
اب گُلابوں کی بھی پہچان بھلا کون کرے
اب کے آتا ہے نظر سارا جو گُلزار لہُو
جانے کب امن کی اس ملک میں آۓ گی فضا
جس کی گلیاں بھی لہُو ہیں در و دیوار لہُو
پہلے اخبار میں ہوتی تھی لہُو کی سرخی
اب اُگلتا ہے یہاں پورا ہی اخبار لہُو
میں جو مر جاؤں تو اوروں کے یہ کام آۓ گا
اپنے بستر پہ گیا چھوڑ یُوں بیمار لہُو
جانے کیوں کانپ اٹھا پِھر سرِمقتل قاتِل
تڑپا کل نوکِ سِناں پر جو وفادار لہُو
گندے نالے میں بہا دینا لہُو میرا کہیں
کیونکہ جچتا نہیں مقتل میں گنہگار لہُو
کربلا نے روایت ہے سکھائی ہم کو
ظُلم کے سامنے جھکتا نہیں خودار لہُو
اس لیۓ ماتمِ شبّیر کا قائل ہوں میں
دے گا محشر میں گواہی یہ عزادار لہُو
کوئی تو لے گا مرے قتل کا بدلہ بــــــــــاقرؔ
ہضم کر پائیں گے کب تک میرا غدار لہُو
مرید باقر انصاری
Copy
بچھڑ کے مجھ سے تجھے بھی زوال ہو کچھ تو
بچھڑ کے مجھ سے تجھے بھی زوال ہو کچھ تو
مری طرح ترا جینا محال ہو کچھ تو
مری طرح تو نہ روۓ وہ درد سے لیکن
میں چاہتا ہوں اُسے بھی ملال ہو کچھ تو
کسی کےعشق میں مَیں نےبھی جاں گنوائی ہے
وفا کے شہر میں میری مثال ہو کچھ تو
یہ سچ ہے عشق نہیں ذات و شکل کا مہتاج
مگر دکھاوے کو حسن و جمال ہو کچھ تو
تمام عمر اگر ہجر میں گزارنی ہے
ضروری ہے کہ مری جاں وصال ہو کچھ تو
فقیر آۓ ہیں مدت کے بعد میخانے
کچھ اور ہو نہ ہو لیکن دھمال ہو کچھ تو
میں چاہتا ہوں غریبی میں نام پیدا کروں
زمانہ چاہے مرے پاس مال ہو کچھ تو
مرے خدا مرے قاتل کو حادثوں سے بچا
کہ میری مرگ میں اُس کا کمال ہو کچھ تو
عدُو نہتا ہو بــــــــــــــــاقرؔ تو وار کیا کرنا
کرو یوں وار کہ پاس اُس کے ڈھال ہو کچھ تو
مرید باقر انصاری
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets