Add Poetry

Poetries by مرید باقر انصاری

نہیں ہے راج کی خواہش سکندروں کی طرح نہیں ہے راج کی خواہش سکندروں کی طرح
ہمیں نواز دے مالک قلندروں کی طرح
جو آج سہمے ہوئے چپ سے رہتے ہیں گمنام
وہ پھیل جائیں گے اک دن سمندروں کی طرح
اگر وہ چاہیں تو دنیا پلٹ کے رکھ دیں گے
نظر جو آئیں بظاہر گدا گروں کی طرح
فقیر لوگ نہیں تاج و تخت کے مہتاج
زمانہ جن کو جُھکے ہے سکندروں کی طرح
کہ سجدہ ریز ہو جن میں ہر ایک نوعِ بشر
ہوں مسجدیں تو کلیساؤں مندروں کی طرح
نہ جانے کس کا وہ بھگوان جا کے بن بیٹھا
جو ہم نے انس تراشا تھا پتھروں کی طرح
تو کیا ہوا ہے کہ تنہا ہیں آج شہر میں ہم
کبھی ہمارے بھی اپنے تھے لشکروں کی طرح
کبھی سرابوں میں خیمے کبھی پہاڑوں پہ گھر
تمام عمر رہا میں مسافروں کی طرح
ہے میرا حال ترے بعد دیکھنے والا
وہ آندھیوں کے ستاۓ بُجھے گھروں کی طرح
مرے نشان یُوں تاریخ میں ملیں گے کبھی
کہ ایک شخص تھا اُجڑا تھا کھنڈروں کی طرح
اکڑ کے چلنے کی عادت تُو بُھول جا باقرؔ
فقیری ذہن بنا لے سخنوروں کی طرح
مرید باقر انصاری
میں سوچتا ہوں کہیں ٹُوٹ ہی نہ جاؤں میں میں سوچتا ہوں کہیں ٹُوٹ ہی نہ جاؤں میں
اگر یہ ہجر میں کچھ اور پل بِتاؤں میں
میں سوچتا ہوں کہ دنیا تمہیں بدل دے گی
چلے جو بس تمہیں دنیا سے چھین لاؤں میں
میں سوچتا ہوں کہ جگنُو کو نوچ ہی ڈالوں
تمام تتلیاں پر کاٹ کر اُڑاؤں میں
میں سوچتا ہوں کہ اُجڑے شجر پہ ظلم کروں
برہنہ شاخیں شجر کی سبھی ہِلاؤں میں
میں سوچتا ہوں کسی کا بھی اب ملن مت ہو
یوں بیٹھے شاخ پہ دو پنچھی بھی اُڑاؤں میں
میں سوچتا ہوں مری طرح سب اُجڑ جائیں
کہ جب وہ روئیں تو جی بھر کے مسکراؤں میں
میں سوچتا ہوں کہ گُل ہوں سکندری کے چراغ
سکندروں کے سبھی تاج توڑ آؤں میں
میں سوچتا ہوں زمانہ کبھی بدل جاۓ
جو ہیں غریب انہیں تخت پر بھی پاؤں میں
میں سوچتا ہوں کبھی ڈھونڈ لاؤں آبِ حیات
ہیں میرے جتنے بھی دُشمن اُنہیں پِلاؤں میں
میں سوچتا ہوں کبھی کام ایسا کر جاؤں
عدُو کی آنکھوں میں بھی آنسُو چھوڑ جاؤں میں
میں سوچتا ہوں کہ پاگل کہیں نہ ہو جاؤں
تمہارے ہجر کی شمع کبھی بجھاؤں میں
میں سوچتا ہوں کبھی خُود کو قتل کر ڈالوں
اور اپنے خُون کے تالاب میں نہاؤں میں
میں سوچتا ہوں کہ باقرؔ مَروں تو کچھ ایسے
کہ دُشمنوں کو بھی شِدّت سے یاد آؤں میں
مرید باقر انصاری
عمر بھر وہ شخص جو مجھ سے جفا کرتا رہا عمر بھر وہ شخص جو مجھ سے جفا کرتا رہا
سوچتا ہوں کس سے آخر وہ وفا کرتا رہا
کتنا پاگل تھا میں دعوت دے رہا تھا موت کو
رُوح اپنی جسم سے جب میں رِہا کرتا رہا
رات میں نے دوستی کی اک عجب دیکھی مثال
فاختہ پیچھے چلی جگنو ضیا کرتا رہا
میں تو اپنی جھونپڑی میں سو گیا تھا چین سے
تیز آندھی میں دفاع اپنا دِیا کرتا کرتا رہا
پھول بیچارے وہی کُملا گۓ کچھ دیر بعد
ترس کھا کر جن کو کانٹوں سے جُدا کرتا رہا
جب بھی دیتا چوٹ پانی بھی پلاتا تھا مجھے
ہاۓ ہاۓ میرا دشمن کیا بھلا کرتا رہا
بےوجہ کل تک میں اپنے دُشمنوں سے تھا خفا
کام تو اچھے برے سارے خُدا کرتا رہا
آج میری ہی دعاؤں سے ہوا وہ کامیاب
عمر بھر میرے لیۓ جو بدعا کرتا رہا
وہ مری دستار میں کانٹے چبھو کر چل دیا
جس کے حصے میں, مَیں ہیرے بہا کرتا رہا
میری قسمت میں کوئی بھی باوفا ساتھی نہیں
جو ملا مجھ کو وہی مجھ سے دغا کرتا رہا
وہ بھی میرے دُشمنوں کے ساتھ آخر ہو لیا
زندگی بھر جس کی میں حاجت روا کرتا رہا
جِس کے عیبوں کو میں کُھلنے سے بچاتا رہ گیا
وہ بھرے بازار میں میرا گِلا کرتا رہا
میرے ہی دل میں چھپا بیٹھا تھا وہ چپ چاپ سا
میں عبادت گاہوں میں جس کا پتا کرتا رہا
عمر بھر مدمقابل یوں رہے میں اور خُدا
میں خطا کرتا رہا ہوں وہ عطا کرتا رہا
تیز طوفاں میں پھنسی کشتی بچانے کےلیے
کوششیں ناکام کتنی ناخدا کرتا رہا
ٹوٹ کر رویا ہے کیوں وہ آج میری قبر پر
عمر بھر جو میرے مرنے کی دعا کرتا رہا
میں یُونہی ثابت قدم رہتا تھا ہر میدان میں
دُور مجھ سے مُشکلیں مُشکل کُشا کرتا رہا
میرے دُشمن بھی یہی کہتے پھریں گے میرے بعد
کیا غضب کی شاعری اک دل جلا کرتا ہے
میرے فن نے مجھ کو زندہ رکھا میرے بعد بھی
تھا وہ مخلص نام جو اونچا مرا کرتا رہا
سنگدل وہ مجھ سے ملنے آج تک آیا نہیں
جس کی خاطر میں نمازیں بھی قضا کرتا رہا
اپنی اپنی ضد پہ باقر دونوں ہی قائم رہے
میں وفا کرتا رہا ہوں وہ جفا کرتا رہا
مرید باقر انصاری
زمیں پہ آج یہ حُوروں کا کیوں ہجوم ہُوا زمیں پہ آج یہ حُوروں کا کیوں ہجوم ہُوا
اور ان کے ساتھ فرشتوں کا کیوں ہجوم ہُوا
کسی بزرگ ولی کا جنازہ ہے شاید
وگرنہ صحن میں پریوں کا کیوں ہجوم ہُوا
ہے رسمِ زُلف کشائی یا غُسل میت کا
میں سوچتا ہوں کہ اربوں کا کیوں ہجوم ہُوا
یہ قتل گاہ نہیں ہے یہ ملک ہے میرا
خُدارا روز یہ لاشوں کا کیوں ہجوم ہُوا
اِسی کا رِزق جو کھا کر اِسی کو کاٹتے ہیں
یہ میرے ملک میں کُتّوں کا کیوں ہجوم ہُوا
یُوں اعتبار نہ اُٹھ جاۓ دین سے ہی کہیں
یہ دن بدن نۓ فرقوں کا کیوں ہجوم ہُوا
تِرا اِشارا ہی کافی تھا میرے مرنے کو
یہ قتل گاہ یہ نیزوں کا کیوں ہجوم ہُوا
کوئی بھی غیر تماشائیوں میں تھا ہی نہیں
جو میں تھا دار پہ اپنوں کا کیوں ہجوم ہُوا
حیات تھا تو کوئی پُوچھتا نہ تھا مجھ کو
یہ میری لاش پہ لوگوں کا کیوں ہجوم ہُوا
کسی درندے کی پھر سے نظر نہ پڑ جاۓ
کنارے جھیل کے بچوں کا کیوں ہجوم ہُوا
بڑا ہی میں تو گنہگار شخص تھا بــــــــاقرؔ
مری لحد پہ پرندوں کا کیوں ہجوم ہُوا
مرید باقر انصاری
کیوں نہ اُگلیں میری نظمیں میرے اشعار لہُو کیوں نہ اُگلیں میری نظمیں میرے اشعار لہُو
روز ہوتے ہیں یہاں جو بھرے بازار لہُو
سوچتا ہوں کہ بھلا جُرم ہے کیا بچوں کا
جانے کیوں کرتے ہیں بچوں کا وہ ہر بار لہُو
اب گُلابوں کی بھی پہچان بھلا کون کرے
اب کے آتا ہے نظر سارا جو گُلزار لہُو
جانے کب امن کی اس ملک میں آۓ گی فضا
جس کی گلیاں بھی لہُو ہیں در و دیوار لہُو
پہلے اخبار میں ہوتی تھی لہُو کی سرخی
اب اُگلتا ہے یہاں پورا ہی اخبار لہُو
میں جو مر جاؤں تو اوروں کے یہ کام آۓ گا
اپنے بستر پہ گیا چھوڑ یُوں بیمار لہُو
جانے کیوں کانپ اٹھا پِھر سرِمقتل قاتِل
تڑپا کل نوکِ سِناں پر جو وفادار لہُو
گندے نالے میں بہا دینا لہُو میرا کہیں
کیونکہ جچتا نہیں مقتل میں گنہگار لہُو
کربلا نے روایت ہے سکھائی ہم کو
ظُلم کے سامنے جھکتا نہیں خودار لہُو
اس لیۓ ماتمِ شبّیر کا قائل ہوں میں
دے گا محشر میں گواہی یہ عزادار لہُو
کوئی تو لے گا مرے قتل کا بدلہ بــــــــــاقرؔ
ہضم کر پائیں گے کب تک میرا غدار لہُو
مرید باقر انصاری
Famous Poets
View More Poets