✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
Sag-e-Attar Junaid Atari
Search
Add Poetry
Poetries by Sag-e-Attar Junaid Atari
جو بھی تم پر نثار رہتے ہیں
جو بھی تم پر نثار رہتے ہیں
مست و بے خُود فگار رہتے ہیں
جو نسیمِ سحر ہو یادوں کی
ہم خزاں میں بہار رہتے ہیں
تیری قدرت کے منکرین آخر
دین و دنیا میں خوار رہتے ہیں
کیا بتائیں سرِ مقدر پر
حادثے ہی سوار رہتے ہیں
ہو ملاقات جن سے یادوں میں
کب بھلا دُور پار رہتے ہیں
جب بھی محوِ خیال رہتے ہیں
مے پپئے بن خمار رہتے ہیں
تُم سخی ہو شہا سو بے کس بھی
نادرِ روزگار رہتے ہیں
تیری تائید ہے عدو میرے
کیسے لاچار و عار رہتے ہیں
جلد از لیجئے خبر میری
جا بجا راہ مار رہتے ہیں
جو ہیں مجذوبِ آستاں اُن پر
راز کیا آشکار رہتے ہیں
دستِ جُود و کرم کی خیر جنیدؔ
ہم سدا قرض دار رہتے ہیں
جنید عطاری
Copy
کب تلک تیرے بن جیوں گا میں
بن ترے کب تلک جیوں گا میں
سرد آئیں ہی کیا بھروں گا میں
شربتِ دیدِ آرزو ہوتے
خُون کے گھونٹ ہی پیوں گا میں
تُو کبھی کُھل کے سامنے تو آ
چشمِ خلقت خرید لوں گا میں
آتشِ عشق کچھ تو چین آئے
ہجر میں کب تلک جلوں گا میں
ہیں چکا چوند خواب محلوں سے
جھونپڑے میں بھلا رہوں گا میں
ہے جہاں تاب فن سخن اپنا
جی میں آتا ہے کب ڈھلوں گا میں
تجھ سے پل بھر جو دھیان ہٹ جائے
پھر بچائے نہیں بچوں گا میں
زندگی میں نے تجھ پہ واری ہے
اپنی خاطر مگر مروں گا میں
گر کوئی تیرے نعل پا کے عوض
عیشِ فردوس دے نہ لُوں گا میں
گر وہ ساقی نہیں اے میخانے
ایک اک چیز توڑ دُوں گا میں
وہ سحر چل گیا ہے نظروں کا
نہ جیوں گا نہ مر سکوں گا میں
جنید عطاری
Copy
عشق میں نام پیدا کرنے پر
عشق میں نام پیدا کرنے پر
ٹھہرے کافر یہ کر گزرنے پر
بحر غم کے کنارے ڈوب گئے
لاش تک نہ ملی اُبھرنے پر
تھی مسیحائی بے نیاز اُن کی
زخم بھرتے بھرا نہ بھرنے پر
ناگہانی میں مار دیجے مجھے
رحم آتا ہے اپنے مرنے پر
سٹرتا رہنے دو گورِ فرصت میں
جان جاتی ہے کام کرنے پر
چشمِ مصروف نیند لائی ہے
دفترِ خواب ِ شوق چرنے پر
وصلِ تعطیل ہے کوئے جاناں
اک زمانہ گیا ہیں دَھرنے پر
جالے پڑنے لگے بدن پہ جنیدؔ
وہ ابھی نرم ہیں سنورنے پر
جان تیری گلی کے پاگل کو
ایک پل نہ لگا سُدھرنے پر
تیرا خرموشِ غم ہوا ہلکان
کاٹنے پر بدن کُترنے پر
سبھی مصروف ہیں مرے پیچھے
بس لگائی بجھائی کرنے پر
اے شبِ ہجر ہڈ حرام ہے تُو
اِک صدی ہو گئی بسرنے پر
لگ گئی عمر دِل پہ چڑھتے جنیدؔ
نا ہوئی خرچ آن اُترنے پر
جنید عطاری
Copy
پہلے تو بولتا نہیں ہوں میں
پہلے تو بولتا نہیں ہوں میں
اور پھر سوچتا نہیں ہوں میں
جسے سُنتے ہی کان بہہ جائیں
زہر وہ گھولتا نہیں ہوں میں
کوئی اخلاق سے جو پیش آئے
طنز سے چُوکتا نہیں ہوں میں
تُو نے جس در کی بحث چھیڑی ہے
اب وہاں تُھوکتا نہیں ہوں میں
کچھ تو دیوار کی خطا ہو گی
سر یُونہی پھوڑتا نہیں ہوں میں
دردِ دل کے بے درد قصوں میں
غم یہ تھا چیختا نہیں ہوں میں
جس نے کچھ بھی بکا ہو میرے خلاف
کیوں وہ منہ توڑتا نہیں ہوں میں
جانے کیا کچھ گنوا دیا میں نے
عشق میں جوڑتا نہیں ہوں میں
جب کرم کی نہیں دلاتے امید
لغزشیں چھوڑتا نہیں ہوں میں
سخت نالاں ہے ہر حسیں پھر بھی
دل لگی چھوڑتا نہیں ہوں میں
جنید عطاری
Copy
اک ہنر دل لگی میں کر جاؤں
اک ہنر دل لگی میں کر جاؤں
اتنا چاہوں تجھے مکر جاؤں
شبِ معراجِ وحشت ِ غم ہے
ہے وہ تنہا ئی خُود سے ڈر جاؤں
خواہشِ دیدِ انتہاء کے لیے
روبرو اُس کے مختصر جاؤں
جی میں اکثر خیال آتا ہے
تیرے پہلو میں گر کے مر جاؤں
اک ہوا ئے گمان چل نکلے
خاک ہو کر کہیں بکھر جاؤں
کاش اُس آستاں سے پِھر جاؤں
کاش جاؤں تو عمر بھر جاؤں
چھین لو تم لبوں سے گویائی
صبر کرتے نہ آہ کر جاؤں
خُوب بگڑوں عدم توجّہ سے
جو وہ پُوچھے مرا سُدھر جاؤں
عمر بھر کا سفر رہے درکار
اک گلی چھوڑ کر اگر جاؤں
ہے مرا کون پوچھنے والا
میں کدھر جاؤں کس نگر جاؤں
دِل پہ چڑھتے میں تھک رہا ہوں جنیدؔ
چاہتا ہوں کے اب اُتر جاؤں
جنید عطاری
Copy
بات بے بات روٹھتے کیوں ہیں
بات بے بات روٹھتے کیوں ہیں
روٹھ جائیں تو بولتے کیوں ہیں
کیوں بھلا دیکھتے ہیں جِس تِس کو
غور کرتے ہیں، گُھورتے کیوں ہیں
غیر سُنتے ہی میرا نوحۂ دِل
داد دیتے ہیں، جھومتے کیوں ہیں
میں ہمیشہ غلط ہی کرتا ہوں
جانتے ہیں تو ٹوکتے کیوں ہیں
بے سبب اور بِلا دلیل مجھے
چاہتے ہیں تو چاہتے کیوں ہیں
میں خفا ہو کے جانے والا تھا
کیوں بلاتے ہیں، روکتے کیوں ہیں؟
جانیے کیوں ہم ایک دُوجے کو
یاد کرتے ہیں، سوچتے کیوں ہیں
اس پہ آخر بھلا جواز کیا دیں
ہم ترے حق میں بولتے کیوں ہیں
تجھ سے بچھڑ ے یہ تیرے دیوانے
ان کو مرنا تھا جی رہے کیوں ہیں
یہ ہمیں بھی نہیں پتا سب پر
کیوں بھڑکتے ہیں چیختے کیوں ہیں
جانتے ہیں بہل نہ پائیں گے
اپنا ماضی کریدتے کیوں ہیں
انتہا پر جدائی لازم ہے
پھر وفا کے مطالبے کیوں ہیں
وہ دِل و جان میں کہیں بھی نہیں
پھر بھی اندر ٹٹولتے کیوں ہیں
چین کی نیند سونے والے جنیدؔ
میری صحبت میں جاگتے کیوں ہیں
جنید عطاری
Copy
درد و غم میں بلا کی لذّت ہے
درد و غم میں بلا کی لذّت ہے
سہنے والوں کی اپنی ہمّت ہے
اک طرف تُو ہے اک طرف میں ہوں
جانیے کس کو کس کی حاجت ہے
خواہ مخواہ یا دآتے رہتے ہو
یہ شرارت ہے یا حماقت ہے؟
دمِ رخصت وہ کہہ گیا مجھ سے
رنج سہتے رہو وصیّت ہے
حد ہوئی، آپ اب بھی روٹھے ہیں
جب نہ شکوہ ہے نا شکایت ہے
مجھ کو دیوانگی سے کیا مطلب
بڑبڑانا تو میری عادت ہے
دھیان تجھ سے ہٹائے ہٹتا نہیں
پسِ پردہ تری کرامت ہے؟
جتنا چاہو سمیٹ لو بڑھ کر
میرے کشکول میں مروّت ہے
ہر سخن میں مبالغے واہ وا
وہ حقیقت میں خوبصورت ہے؟
جنسِ غم کی ہوئی فراوانی
تیری حاجت کی کیا ضرورت ہے
روٹھنے کا مجھے بھی شوق نہیں
میں تو مجبور ہوں کے عادت ہے
بھانے والے تو بھا چکے ہم کو
چاہیں کس کو یہی مصیبت ہے
جس کا عاشق رہا ہے آدم بھی
میں عجب ہوں اُسی سے نفرت ہے
تُم مرے پاس ہو مگر پھر بھی
لگ رہا ہے کہ جیسے فُرقت ہے
اپنی غفلت سے تجھ کو ہارا ہوں
بات تو باعثِ ندامت ہے
مر گئے جان و دِل جگر لیکن
آرزو جُوں کی تُوں سلامت ہے
مدتوں تک تُو خوابِ صادق تھا
اب فقط شکوۂ حقیقت ہے
ہم تو اپنے یہاں رہے نایاب
تیرے تئیں کیا ہماری قیمت ہے؟
جوڑ اپنا کہاں کوئی تجھ سے
ماننے میں بڑی اذّیت ہے
سوچتے جی ہی بجھ گیا ہے جنیدؔ
اُس کی فُرقت کسی کی وُصلت ہے
جنید عطاری
Copy
ہم نہیں ہیں کسی بھی حالت میں
ہم نہیں ہیں کسی بھی حالت میں
مارے پھرتے ہیں شہرِ حیرت میں
ہوس انگیز تھا بدن اُس کا
چُھو نہیں پائے ہم شرافت میں
ہائے وہ لب، مفارقت کا بیاں
زہر گھولا گیا سماعت میں
جانے کن آنسوؤں کو روتا ہوں
کس کی آنکھوں سے کس کی صورت میں
جو بھی چاہا گیا لکھا لیکن
لفظِ ممکن ہوا نہ قسمت میں
تُو اگرچے تھا منفرد لیکن
دم نہیں تھا تری محبت میں
جانے کس طور ڈھل گیا اک شخص
دید سے خواہش و ضرورت میں
آپ اپنے سے ہوں جواب طلب
کیوں ہوں ناپید اُس کی حجّت میں
کب یہ کارِ جہاں میں گُم سمجھیں
جو مزہ ہے بلا کی فرصت میں
اِک عجب حادثہ ہوا یعنی
میں تجھے چاہ گیا ہوں نفرت میں
بخش دی اپنی بادشاہی بھی
ہم بھکاری ہوئے حکومت میں
کیا بتائیں تری کمی جو ہو
ہم ہیں کنگال اپنی دولت میں
تو کیا خط میں یہی لکھوں اُس کو
دن گزرتے ہیں تجھ سے غفلت میں
جنید عطاری
Copy
ٹُوٹا پھُوٹا ہوں، مجھ کو رہنے دو
ٹُوٹا پھُوٹا ہوں، مجھ کو رہنے دو
ہاں، چٹختا ہوں، مجھ کو رہنے دو
کرتے کیوں ہو عدو سی تدبیریں
گر میں بگڑا ہوں، مجھ کو رہنے دو
پیچ زلفوں کے چھوڑ دو کل پر
اندر الجھا ہوں، مجھ کو رہنے دو
اے پشیماں اُمیدِ نُو تجھ کو
کتنا ہارا ہوں، مجھ کو رہنے دو
دوستوں کے ہجوم میں ہو کر
میں اکیلا ہوں، مجھ کو رہنے دو
دونوں عالم کی بزمِ حیرت میں
سویا جاگا ہوں، مجھ کو رہنے دو
میں بنا ہی کسی تصوّر کے
میں جو کھویا ہوں، مجھ کو رہنے دو
آبِ گل میں ملائے دو بوندیں
زہر پیتا ہوں، مجھ کو رہنے دو
تیری یادوں کو جا بجا لے کر
خوار پھرتا ہوں، مجھ کو رہنے دو
اپنی منزل سے اپنی راہوں میں
تنگ و تنہا ہوں، مجھ کو رہنے دو
سر رکھے، سودۂ جنوں بھی رکھے
خالی لگتا ہوں، مجھ کو رہنے دو
جنید عطاری
Copy
حال برباد جو ہوا ترے بعد
حال برباد جو ہوا ترے بعد
اپنے ہاتھوں کیا گیا ترے بعد
خشک و تر کی تمام خلقت سے
واسطہ ہی نہیں رکھا ترے بعد
عجب اک کشمکش رہی اندر
جیسے خُود سے بچھڑ گیا ترے بعد
کس کے حق میں زباں چلاتا پھر
کوئی خوش تھا کوئی خفا ترے بعد
تیرا ہونا بھی تھا عذاب مگر
رہے خود سے گریزپا ترے بعد
حوصلہ ہی کہاں ہے سُننے کا
کون کس سے تھا باوفا ترے بعد
دوزخِ دشتِ زندگانی میں
اِک قدم بھی نہیں چلا ترے بعد
ایسی بے ذوق تھی جدائی بھی
خُوں نہ رویا، نہ پھر ہنسا ترے بعد
جانے والے تُو جا، پہ لب دے جا
خود سے کرتا رہوں گِلہ ترے بعد
تھی وہ بے طور سرگزشتِ غم
سننے والا نہیں ملا ترے بعد
ہر بلا مجھ سے ٹل گئی میری
وہم تیرا نہیں ٹلا ترے بعد
اِک خطا ہو گئی تھی کاتب سے
ذکر تیرا مٹا دیا ترے بعد
اب کہاں وہ قفس، کہاں صیّاد
سب کو آزاد کر چکا ترے بعد
گر بچھڑنے کا غم نہیں ہوتا
کوئی ہوتا نہ دوسرا ترے بعد
دونوں عالم کی خاک چھانی تھی
تُو کہیں بھی نہیں ملا ترے بعد
عادتِ ترکِ مدّعا تھی وہی
پر کوئی مدعا نہ تھا ترے بعد
جس سے روشن ہے آسمانِ اُمید
بجھتا جاتا ہے وہ دِیا ترے بعد
آرزوئیں بھی ساتھ چھوڑ گئیں
دل ہی ویران ہو گیا ترے بعد
جیسے تیسے تجھے بُھلانا تھا
سو پیا میں الا بلا ترے بعد
تیرے غم کو لگائے سینے سے
کوئی اک تھا نہ جی سکا ترے بعد
جنید عطاری
Copy
عشق ہے کھیل کھیلنے کے لیے
عشق ہے کھیل کھیلنے کے لیے
جیتنے اور ہارنے کے لیے
دمِ رخصت نہ تھا لبوں پہ جنید
اک بہانہ بھی روکنے کے لیے
کاش تیشہ اُدھار دے فرہاد
واسطے گور کھودنے کے لیے
اب چھپانا بھی کیا بھلا تجھ سے
ہے کہاں وقت سوچنے کے لیے
ہر نئی صبح اک نیا دن ہے
بے دلی میں گزارنے کے لیے
گو ترے جاں نثار ہیں پھر بھی
اب لڑے کون جیتنے کے لیے
مجھ کو رکّھا ہوا ہے زخموں نے
چیخنے، خون چاٹنے کے لیے
یاراں! انسان کی ہر اِک کوشش
ہے مقدر سے ہارنے کے لیے
ہر محلے میں ایک ماتم ہے
پر نہیں لوگ پیٹنے کے لیے
آرزو ہے کسی کی زلفوں کی
نوکری ہو سنوارنے کے لیے
کیا فقط درد ہی بنایا ہے
آسماں سے اُتارنے کے لیے
میرے قدموں نے تھک کے بھیجے تھے
راستے اُس کو ڈھونڈنے کے لیے
ہے طلب میری خودسری کو فقط
ناصحا چند ٹوکنے کے لیے
غمِ ہستی نے مار کر ہم کو
گورِ حسرت دی جاگنے کے لیے
رن کو نکلا تو ہوں نہیں معلوم
جنگ ہے کس سے جیتنے کے لیے
اِک گھڑی بھی لکھی ہے فرحت کی
اے خُدا! مجھ سے دِل جلے کے لیے؟
بس پڑھا ہے کتابِ عالم میں
ہیں موافق ستم بھلے کے لیے
میرے حجرے میں رہ گئی دیوار
اور میں سر کو پھوڑنے کے لیے
یاں کوئی ہے ہماری حالت پر
چیخنے اورپُکارنے کے لیے؟
تُو نے انسان کر دیا ایجاد
ایک بھگڈر میں روندے کے لیے
مدعا اب نہیں لبوں پہ جنیدؔ
ہے مگر زہر تھوکنے کے لیے
جنید عطاری
Copy
تیری اُمید ہے سزا، مجھے کیا
تیری اُمید ہے سزا، مجھے کیا
تُو چلا جا کبھی نہ آ، مجھے کیا
تیرا ہونا نہ ہونا دھوکہ ہے
سُن! حقیقت بھی ہو گیا، مجھے کیا
خود سے میری ذرا نہیں بنتی
جانیے کیا ہے ماجرا، مجھے کیا
قیس کے بعد دشتِ غربت میں
ہے کوئی مجھ سا سر پھرا، مجھے کیا
قصۂ خضر سن کے رُومی سے
اب کروں کس کو رہ نما، مجھے کیا
دل لگائے کہاں لگا اُس سے
تھا رقیبوں کا آشنا، مجھے کیا
روش اپنی سدا کی بیری ہے
منہ ترا خاک ناصحا، مجھے کیا
میں تو مجھ تک کبھی نہیں آیا
برہنہ پا تُو آ چکا، مجھے کیا
تُو جو یکبارگی جلا دل سے
دم میں بے ساختہ بُجھا، مجھے کیا
مر رہیں خواب سب کی آنکھوں کے
آسماں پر جلے دِیا، مجھے کیا
کیا اجازت ہے تلخ گوئی کی؟
پھر بھلے ہوں سبھی خفا، مجھے کیا
کچھ وفا نے تجھے دیا بھی کیا
خود فریبی کے مبتلا، مجھے کیا
کون ہوں میں مجھے نہیں معلوم
شخص یا اُس سے ماوراء، مجھے کیا
یہ مری عمر رائیگانی ہے
ہو ہر اک نفس کا بھلا، مجھے کیا
جل گئے ہیں سبھی دلی ارمان
دوزخ ِ غم بھڑک اُٹھا، مجھے کیا
ابھی تیشے میں میرے دم ہے بہت
تھک کے فرہاد گھر چلا، مجھے کیا
ٹل گئی تُجھ سے ہر بلا تیری
میں ابھی تک نہیں ٹلا، مجھے کیا
دِلِ نالاں پہ سوگ طاری ہے
اک ہی اپنا تھا مر گیا؟ مجھے کیا
جنید عطاری
Copy
یہ مروّت کیا کم ہے ملتے ہوئے
یہ مروّت کیا کم ہے ملتے ہوئے
جھوٹے آنسُو خوشی سے روئے ہیں
کتنے برباد خواب آنکھوں میں
چین کی مر کے نیند سوئے ہیں
مجھ سے تاریک کی جفاؤں سے
کتنے چہروں نے نُور کھوئے ہیں
اے مرا ناخدا پرستش سے
سجدۂ سہو مجھ پہ روئے ہیں
اے دلا! غسلِ بدگمانی سے
ایک عالم کے بحر دھوئے ہیں
اے مری فصلِ پُر بہار اب تک
تیری کھیتی میں خار بوئے ہیں
شکوۂ موجِ خُود سری کس کو
اپنے بیڑے تُو خود ڈبوئے ہیں
تیری صورت کو رنگ دے دے کر
انگلیاں خُون میں بھگوئے ہیں
لب بلا کے ہیں تشنہ کام جنیدؔ
اندروں تک بھنور سموئے ہیں
جنید عطاری
Copy
گرچہِ بچھڑی بھی تو مِلا کرے گی
گرچہِ بچھڑی بھی تو مِلا کرے گی
یعنی اُمید کو سزا کرے گی
میں ہوں اپنے قفس کا قیدی اور
وہ جب بھی آئے گی تو رِہا کرے گی
اپنی شدّت برائے نام ہی تھی
کب گماں تھا وہ انتہا کرے گی
وقتِ عہدِ وفا نہیں سوچا
خود فریبی بھی اِقتضا کرے گی
مجھ سے ملنے کو روز ہی سرِ شام
سوئی آنکھوں میں جا رَہا کرے گی
پھر وہی خامشی سے تکراریں
جب کوئی بات نا بنا کرے گی
جیسے حالات بھی رہیں درپیش
کسی صُورت نہیں نبھا کرے گی
یہ بھی پوچھا کہ نا ملے ہم تم
کس پہ الزام وہ دھرا کرے گی
جی لگاتے نہیں خیال آیا
کوچے کوچے خبر اُڑا کرے گی
گو کہ تدبیر سے وہ خائف تھی
یہ کیا کم تھا بہت دُعا کرے گی
بیچ ہم نے جو ذات ڈالی تھی
کب خبر تھی وہی جدا کرے گی
جب بچھڑ کر نہیں خلش دل میں
کیسے مل کر خُوشی ہُوا کرے گی
راستوں میں بکھیر کر ہم کو
منزلوں پر مغالطہ کرے گی
وہ رقیبوں کی بزمِ عشرت میں
اک تماشے سے ابتدا کرے گی
جان دونوں کہیں پہ بھاگ چلیں
ایسی خوش فہمی کر لیا کرے گی
میں سمجھتے سمجھ سکا نہ جنیدؔ
ہرزہ گوئی بجا لگا کرے گی
جنید عطاری
Copy
کیا خُوشی کیا غمی بھی بھول گیا
کیا خُوشی کیا غمی بھی بھول گیا
اب تو وہ من چلی بھی بھول گیا
اِس قدر خُوب تھا وہ خُوش قامت
دیکھتے شاعری بھی بھول گیا
جی لگاتے لگاتے اُس سے میں
آخرش دل لگی بھی بھول گیا
مدّتوں بے سبب اداس رہے
وجہِ افسردگی بھی بھول گیا
دیکھ کر اُس کی چشم ِپُرنم کو
آستیں کی نمی بھی بھول گیا
سرِبالیں میں دیکھتے ہی اُسے
موت کی جانکنی بھی بھول گیا
بستیوں اب مرا یقین آیا
جب میں آوارگی بھی بھول گیا
اب مری یاد کھینچ لائی ہے؟
جب تمہاری کمی بھی بھول گیا
ناز اٹھاتے میں زندگانی کے
دوستی دشمنی بھی بھول گیا
جانیے کیا سحر کیا اُس نے
اپنی شعلہ زنی بھی بھول گیا
دمِ رخصت لہو نہ رویا اور
مرتے دم تک ہنسی بھی بھول گیا
گاہے گاہے میں طنز کرتے وقت
اُس کی بیچارگی بھی بھول گیا
کوچۂ یار کا کوئی پاگل
ایسا سُدھرا گلی بھی بھول گیا
جنید عطاری
Copy
پہلے دِل کا محلّہ ڈھانا ہے
پہلے دِل کا محلّہ ڈھانا ہے
پھر لہو رو کے مسکرانا ہے
اب تری یاد بس ہمارے ہاں
دن گنوانے کا اک بہانہ ہے
نہیں اب تک یہ فیصلہ ہو سکا
پہلے کس نے کسے بُھلانا ہے
یہ محبت بھی ہے عجب ناٹک
خوں پیئے ایک جگ ہنسانا ہے
ہم سے بڑھ کر وہ کج ادا ہی سہی
انتہاء تک بھی آزمانا ہے
تیری بے ماجرا خموشی سے
ایک پاگل نے غُل مچانا ہے
تیرے در سے رہی امیدِ کرم
جبر کرنا ہے زہر کھانا ہے
ہیں وہ کرتوت کے مرا لاشہ
رند نے بھی نہیں اُٹھانا ہے
کیوں بلا کو تری غرض اُس سے
جس نے کُڑ کُڑ کے مر ہی جانا ہے
سچ بتاؤں کے عشق میرے تئیں
کچھ نہیں، زندگی گنوانا ہے
جنید عطاری
Copy
اپنے حق میں ہیں دونوں دیواریں
اپنے حق میں ہیں دونوں دیواریں
بیچ جن کے دراڑ ہے حائل
کس عدالت میں کیجیئے فریاد
ایک دوجے کے ہم ہی ہیں قاتل
وصل اگرچہ پسند آیا ہمیں
ہجر ہی تھا مزاج کے قابل
اب بھلا کون اِن سے بحث کرے
صُورتوں سے ہیں ناصحا جاہل
ایک دوجے سے ایسے ملتے ہیں
جیسے دریا سے مل رہے ساحل
جنگ لڑنے کا مت کہو مجھ سے
کہ میں اپنے گماں میں ہُوں گھائل
اُٹھ کے اب موت کا کر استقبال
زندگانی گزر گئی کاہل
جنید عطاری
Copy
کیا بچھڑ کر کروں گلہ جاناں
کیا بچھڑ کر کروں گلہ جاناں
تھا مقدر کا فیصلہ جاناں
کبھی فُرصت سے لو خبر میری
آزمانا بھی صبر کیا جاناں
بسترِ مرگ پر کوئی بیمار
ایڑیاں ہے رگڑ رہا جاناں
فقط اِک لمحۂِ جدائی کا
مدتوں غم مجھے رہا جاناں
تھی وہ مجبور بھی مسیحائی
زخم رنجش نہیں بھرا جاناں
تم جو اک پل جدا نہیں مجھ سے
درمیاں کیوں ہے فاصلہ جاناں
مجھ میں آخر ہے کون جو مجھ سے
ہے نہایت گریزپا جاناں
میری محرومیوں کو سمجھے کون
اور وہ تم سے بھی سوا جاناں
صدمۂِ ہجر پر دلاسا مجھے
قیس نے بھی بہت دیا جاناں
حال دیکھا جو میر و غالب نے
اُن کو صدمہ بہت ہُوا جاناں
زہر تھی حق میں زندگانی بھی
نہ جیا نہ ہی مر سکا جاناں
بِن ترے کتنی بے امانی ہے
کیا یہاں ہے کوئی خدا جاناں؟
کس نے لوح و قلم پہ لکھّا تھا
بے ملے جو ہوئے جدا جاناں
کتنا چیخوں میں کس سے شکوہ کروں؟
چھل گیا ہے مرا گلا جاناں
آسماں تک بس اِک نظر کر کے
دِل تڑپ کر ہی مر گیا جاناں
جنید عطاری
Copy
وحدت و وجد میں گما تھا میں
وحدت و وجد میں گما تھا میں
آدمی تھا یا پھر خدا تھا میں؟
میرے سب نوحہ خوان دوست رہے
اُن کے دکھڑوں پہ چیختا تھا میں
عرش تک سکھ نے چھان مارا مجھے
پہلوئے رنج میں پڑا تھا میں
دل میں خلقت کے راز دفن کیے
دارِ خاموشی پر چڑھا تھا میں
شب گھر اتنا ڈراؤنا تھا مرا
دیکھ کر خود کو ڈر گیا تھا میں
میرے دُکھ درد مجھ سے تھے بیزار
خود سے مایوس پھر رہا تھا میں
تشنگی چھین کر ہر اِک لب کی
تشنہ کامی کی انتہا تھا میں
اپنے جذبات پر جو نادم ہو
کیا تمہارا کوئی گنہ تھا میں؟
راست گوئی پہ اب یقین آیا
پہلے بکواس کر رہا تھا میں
ہر کسی کے لیے ہوا میں عذاب
آدمی تھا یا بددعا تھا میں
دیر سے پوچھنے کو آئے ہیں
مدّتوں پہلے مر گیا تھا میں
جنید عطاری
Copy
گو سکندر سے میں نہیں کم تھا
گو سکندر سے میں نہیں کم تھا
پر ترے در کا ایک خادم تھا
کبھی جس میں کوئی سماں نہ تھا
باغِ جاں پر اک ایسا موسم تھا
جسے پی کر بھی تشنہ کام رہے
بس پہنچ میں وہ چاہِ زم زم تھا
یوں تو مغرور تھے اندھیرے بھی
لیکن اپنا چراغ مدہم تھا
یاد کے زخم میں نے خُود نہ بھرے
ہاتھ میں زہر کا بھی مرہم تھا
دمِ رخصت کسی خطا کے بغیر
وہ مقدس سا رُخ بہت نم تھا
ورد سے ہونٹ جل گئے میرے
جاں ترا نام اِسمِ اعظم تھا
غم میں رو کر جہاں ڈبو دیتا
اپنی آنکھوں میں آب ہی کم تھا
زندگانی الجھ گئی جس سے
وہ تری زُلف کا کوئی خم تھا
پیش پتھر پہ ہو تو پھٹ جائے
ایسا تیرے فراق کا غم تھا
تجھے جس طور سہہ گیا ہوں میں
اتنا فولاد میں نہیں دم تھا
آسماں سے میں جنگ لڑتا رہا
یہ نہ سوچا میں ایک آدم تھا
روبرو جس کے ہر جبیں خم تھی
وہ ترے پیرہن کا پرچم تھا
لاتے لاتے ہی مر گیا قاصد
وہ ترا خط تھا یا کوئی بم تھا
جنید عطاری
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets